کراچی۔15جون (اے پی پی):وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے منگل کو صوبائی اسمبلی کے فلور پر 329.303 ارب روپے کے ترقیاتی پورٹ فولیو کے ساتھ 1477.9 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ 2021-22 کے حجم کا تخمینہ 1477.903 ارب روپے لگایا گیا ہے جس کے مقابلہ میں وفاقی و صوبائی منتقلی سمیت کل وصولیاں 1452.168 ارب روپے ہوں گی جس میں 25.738 ارب روپے کا خسارہ ظاہر ہوا۔
اپنی تقریر کے آغاز میںوزیراعلی سندھ نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر اعتماد بحال کرنے پر صوبے کے عوام کا شکریہ ادا کیا اور انکی توقعات پر پورا اترنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا جب سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)کی بنیاد رکھی گئی ہے عوام نے ہمیشہ ترقیاتی پروگرامز کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے عوام نے پے درپے انتخابات میں گورننس حکمرانی کو ہمارے ہاتھ میںسونپ کر صوبے کیلئے ہماری خدمات کو تسلیم کیا خاص طور پر 2018 کے عام انتخابات میں جہاں ہم نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ خدمات کرنے کا موقع ملا۔مالی سال2021-22 کے بجٹ کی چیدہ چیدہ نکات:وزیراعلی سندھ نے کہا کہ آئندہ مالی سال 2021-22کیلئے صوبے کا کل بجٹ 1477.903 ارب روپے ہے
جبکہ صوبائی بجٹ میں 19.1 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے سندھ اسمبلی میں 1477.903 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کرتے ہوئے خسارے کا تخمینہ 25.738 ارب روپے لگایا گیا ۔ انھوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کیلئے صوبے کے بجٹ کا کل تخمینہ 1452.168 ارب روپے ہے اورصوبے کی اپنی وصولیاں 329.319 ارب روپے متوقع ہیں جبکہ متواتر اخراجات 1089.372 ارب روپے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں صوبے کے ترقیاتی اخراجات 329.033 ارب روپے متوقع ہیں اور رواں مالی سال کے مقابلہ میں آئندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی اخراجات میں 41.3 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بجٹ تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ صوبائی اے ڈی پی کیلئے 222.500 ارب روپے مختص کئے گئے ،صوبائی اے ڈی پی میں 43.5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے،ضلع اے ڈی پی کیلئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ ضلعی اے ڈی پی میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ کم سے کم اجرت 17500 روپے سے بڑھا کر 25000 روپے کردی گئی ہے جبکہ مجموعی تنخواہوں اور کم سے کم اجرت یعنی 25000 روپے کے درمیانی فرق کو ختم کرنے کیلئے سندھ حکومت اپنے ملازمین کیلئے (ماسوائے پولیس کانسٹیبلز، گریڈ 01 سے گریڈ 05 تک)ذاتی الانس متعارف کرایا ہے،
ان کے ساتھ ساتھ مستحق افراد کی معاونت اور معیشت کی بحالی کے سلسلے میں 30.90 ارب روپے کے غریب افراد کے سماجی تحفظ اور معاشی استحکام پیکیج کو دوبارہ بجٹ میں رکھا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ زراعت کے شعبے کی بحالی کیلئے 3.00 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،شہریوں کی فلاح و بہبود کیلئے 16.00 ارب روپے رکھے گئے ہیں،تعلیم کے شعبے کیلئے 3.20 ارب روپے رکھے گئے ہیں،آئی ٹی سیکٹر کی بحالی کیلئے 1.70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ایس ایم ایز کے توسط سے صنعتی ترقی کیلئے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں،کم لاگت کی ہاسنگ کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،
لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کی معاونت کیلئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں،زراعت سے وابسطہ خواتین کیلئے 500 ملین روپے رکھے گئے ہیں،اسپشل چلڈرن فنڈ کیلئے 500 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ آئندہ مالی سال 22-2021میں تعلیمی شعبے کیلئے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ رکھا گیا ہے اور اس کے بعد صحت اور بلدیات کا حصہ ہے جبکہ تعلیم کیلئے بجٹ میں 14.2 فیصد اضافے کے ساتھ 277.56 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور اسکولز کیلئے فرنیچر کی خریداری کے سلسلے میں 6.623روپے مختص کئے گئے ہیں،
صوبے میں اسکولوں کی تزئین و آرائش کیلئے 5.00 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، کالجز کی مرمت اور بحالی کیلئے 425 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال 22-2021میں تعلیم کے شعبے کیلئے ترقیاتی بجٹ کی مد میں 26 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صحت کی خدمات کیلئے بجٹ میں 29.5 فیصد اضافہ کے ساتھ 172.08 ارب رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میںوبائی امراض سے نبردآزما ہونے کیلئے 24.73 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ مختص شدہ رقم میں ہیلتھ رسک الانس بھی شامل ہے۔پی پی ایچ آئی کیلئے بجٹ میں 26 فیصد اضافے کے ساتھ 8.2 ارب روپے کردی گئی ہے،انڈس ہسپتال کو سالانہ گرانٹ 2.5 ارب روپے رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انڈس اسپتال کی توسیع کیلئے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ایس آئی یو ٹی کو دی جانے والی گرانٹ میں 27 فیصد اضافہ کرکے 7.12 ارب روپے کیا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں صحت کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 18.50 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صوبے میں امن وامان کو برقرار رکھنے کیلئے آئندہ مالی سال میں 119.97 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بلدیات کے بجٹ میں 31.3 فیصد اضافہ کرکے 10.48 ارب روپے کیا گیا ہے، اس کے علاوہ مقامی کونسلز کے فنڈز کیلئے ا 82.00 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔آئندہ مالی سال 2021-22میں بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی بجٹ کیلئے 25.500 ارب روپے رکھے گئیہیں۔ آئندہ مالی سال میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کیلئے مختص شدہ 7.52 ارب روپے رکھے گئے ہیں،آئندہ مالی سال محکمہ سوشل ویلفیئر کیلئے 18.61 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،
محکمہ ری ہیبلیٹیشن کیلئے 60.9 فیصد اضافے کے ساتھ1.840 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، محکمہ وومین ڈیولپمنٹ کیلئے مختص شدہ رقم کو 64.1 فیصد اضافے کے ساتھ 571.97 ملین روپے کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال 2021-22میں محکمہ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ کیلئے مختص شدہ رقم کو15 فیصد اضافے کے بعد 7.64 ارب روپے کردیا گیا ہے ، کیونکہ 250 ڈیزل ہائبرڈ الیکٹرک بسیں خریدی جائیں گی۔ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ کی اے ڈی پی میںآئندہ مالی سال کیلئے 8.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 20.59 ارب روپے غیر ملکی منصوبوں کی معاونت کیلئے بھی مختص کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز کیلئے 16.03 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور ورکس اینڈ سروسز کے ترقیاتی بجٹ کیلئے30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 2020-21کے نظر ثانی شدہ بجٹ کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ رواں مالی سال 2020-21کے لیے 1,073.7بلین روپے کے بجٹ تخمینہ کے مقابلے میں صوبے کی وصولیاں 960.4بلین روپے ہوئیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ ہم وفاقی منتقلیوں کی مد میں کمی کا سامنا کررہے ہیں۔ اس مالی سال11مہینوں کے دوران 696.944بلین روپے کی کٹوتی شدہ وصولیوں کی مد میں ہمیں صرف 623.619بلین روپے ملے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ہمیں 83.8بلین روپے کی کمی کا سامنا ہے۔
وفاقی پی ایس ڈی پی وصولیوں کی مد میں 8.302بلین روپے پر نظر ثانی کی گئی ہے جبکہ نظر ثانی شدہ غیر ملکی پراجیکٹ امدادمیں 38.29بلین روپے بنتی ہے۔313.4بلین روپے کے کٹوتی شدہ ہدف کی مد میں صوبائی ٹیکس اور غیر ٹیکس وصولیوں کا نظر ثانی شدہ بجٹ 242.9بلین روپے ہے۔ اخراجاتی بجٹ میں 968.99بلین روپے میں 954.4بلین روپے تک نظر ثانی کی گئی ہے۔232.94بلین روپے کا تخمینہ شدہ رقم کے مقابلے میں ترقیاتی اخراجات پر 160.3بلین روپے تک نظر ثانی کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کٹوتی اور کورونا (کووڈ 19 )کے باعث صوبائی وصولیوں میں شدید کمی کا سامنا رہا۔
صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام جو کہ سال 2019-20میں 228.0بلین روپے تھا وہ سال 2020-21 میں 170.0بلین روپے تک کم کیاگیا۔ رواں مالی سال کے دوران سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے نظر ثانی تخمینہ لگ بھگ 113.0بلین روپے ہوگا۔ مختلف مشکلات کے باوجود متعلقہ محکمے مالی سال 2020-21کے دوران تقریبا 4460منصوبے مکمل کریں گے۔
یہاںیہ بات اجاگر کرنا ضروری ہے کہ آئندہ مالی سال ہم کورونا (کووڈ 19)کے بعد کی صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے، ہم نے اپنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی ترجیحات کومتوازن کرنے کی کوشش کی ہے۔ صوبے کے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 329.032بلین روپے لگایا گیا ہے جس میں صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 222.5بلین روپے اور ضلعی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 30.0بلین روپے غیر ملکی پراجیکٹس امداد کے 71.16بلین روپے اور حکومت سندھ کے زیر اہتمام منصوبوں وفاقی پی ایس ڈی پی گرانٹ کے 5.4بلین روپے شامل ہیں۔مالی سال 2021-22 کے پہلی اور دوسری سہ ماہی کے دوران 1033 منصوبوں کو مکمل کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کی بروقت تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ 100ملین روپے کی اضافی رقم سے رواں منصوبوں کو جون 2022 تک مکمل کرنے کے لیے پوری رقم فراہم کی گئی ہے۔
رواں منصوبوں جس پر 70فیصد اخراجات کیے گئے ہیں انہیں جون 2022تک مکمل کرنے کے لیے پوری رقم فراہم کی گئی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہم سرکاری مالیاتی انتظام میں احتساب اور شفافیت کے عمل کی حوصلہ افزائی کے لیے بجٹ کی معلومات تک شہریوں کی رسائی کو بہتر بنانے کے لیے شہریوں کا بجٹ متعارف کرایا ہے، اس میں صوبائی بجٹ کو سادہ اور آسان بنایا گیا ہے جس میں اہم نکات کو اجاگر کیاگیا ہے اور اسے عام افراد کے فہم کے لیے آسان بنایاگیاہے جس سے شہریوں کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ منتخب نمائندوں اور سرکاری اہلکاروں کو جوابدہ بنائیں اور بہتر حکمرانی میں اپنا کردار اد ا کریں۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ غیر ترقیاتی اور ترقیاتی اخراجات کی ترجیحات کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمارے اہم اہداف درج ذیل ہیں
:تعلیمی اداروں میں اضافی داخلوں کے پیش نظر بنیادی ڈھانچے سے متعلق سہولیات کی فراہمی۔ صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے اور اپ گریڈیشن اور موجودہ صحت کے اداروں میں بہتر انتظام۔غربت میں کمی کے لیے غذائی امداد، کمیونٹی انفراسٹرکچر فنڈز، آمدنی میں اضافے کی گرانٹس، مائیکرو اثاثے اور غریبوں کی غربت ختم کرنے کے لیے کم لاگت کی ہاسنگ اسکیم۔زرعی پیداوار اور ویلیو چین میں اضافہ۔ زرعی صنعتی اور میونسپل استعمال کے لیے پانی کو محفوظ کرنا۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کا نظام۔صوبے کے اہم شہروں اور ٹانز کو منسلک کرنا۔ کراچی شہر کے لیے سڑکوں کو جوڑنے اور ماس ٹرانزٹ کا منصوبہ۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ موجودہ عوامی حکومت خدمات کی فراہمی میں اضافے کے لیے بہت زیادہ حساس ہے۔
ہم کم از کم حکومت میں زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزگار کے مواقع مہیا کرے تاہم ان مواقع کی تخلیق میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دور میں تمام تقرریاں اہلیت کی بنیاد پر کی گئی ہیں جن کیضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے اور اگلے مالی سال میں ہم نے تقریبا 2600اسامیاں تخلیق کی ہیں۔ صحتِ عامہ کے حوالے سے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کسی بھی ملک کا عظیم اثاثہ اس کے صحت مند شہری ہیں۔ صوبہ کی پوری آبادی کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہماری حکومت پرعزم ہے۔ صوبہ کے تمام شہریوں کے لیییہ ایک بنیادی حق ہے، ماسوائے ان چند افراد کے لیے جو نجی کلینکس میں مہنگے ڈاکٹرز کی فیس کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ معاشیات کی اصطلاح میں سب سے بنیادی امر ویکسین ہے جو صحت عامہ کے امور میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
جس کی وجہ سے بیماری کے امکانات اور بچوں کی بہتر صحت اور ان کی پوری زندگی میں بیماریوں سے لڑنے کی مثر قوت پیدا ہوتی ہے اور یہ مستقبل میں صحت عامہ کی مطلوبہ رقوم میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ صحت عامہ ترجیحی شعبہ کے طور پر ہی رہتی ہے۔ کوووڈ۔ 19 کی ناگہانی آفت کے بعد اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے سال 2020-21کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے صحت کے شعبہ کو از سر نو ترجیح دی ہے جس میں کووڈ۔19سے بچا، احتیاط، سماجی دوری اور علاج معالجہ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جو معاشی تباہ کاریاں ہوئی ہیں ان میں کاروبار کی بندش اور ملازمتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے جو صورت پیدا ہوئی اس کی تلافی کرنے کے لیے حکومت نے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی اہم اقدامات کیے۔ اگلے مالی سال کے لیے 172 بلین کی رقم مختص کی گئی ہے جو سال 2020-21 میں 132.88 بلین تھی۔
صحت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں اگلے مالی سال کے لیے 18.5 بلین شامل کیے گئے ہیں۔ صحت کے شعبہ بشمول طبی تعلیم میں اگلے مالی سال میں مختص کی گئی کل رقم کا 30فیصد اضافہ سامنے آئے گا۔مزید براں، انسداد پولیو، ٹی بی، ایڈز، لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، ہیپاٹائٹس کنٹرول امیونائزیشن کے توسیعی پروگرام اور دیگر کے لیے اگلے مالی سال 2021-22 میں تمام عمودی پروگرامز میں دس فیصد اضافہ کے ساتھ 7.6 بلین کی رقم مختص کی گئی ہے۔بجٹ کی نمایاں خصوصیات بیان کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ چیدہ چیدہ اضافہ کے ساتھ سندھ میں ٹی بی کنٹرول پروگرام کے لیے 644.9 ملین، لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کے لیے 1.4 بلین، سندھ میں ہیپاٹائٹس سے بچا اور کنٹرول کے لیے 2.04 بلین، زچگی اور نوزائیدہ اطفال اور چائلڈ ہیلتھ پروگرام کے لیے 315.9ملین، ملیریا کنٹرول پروگرام کے لیے 309.8ملین،EPI پروگرام سندھ کے لیے 2.5 بلین، سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے لیے 288.7ملین، ڈینگی سے بچا اور احتیاط پروگرام کے لیے 57.9 ملین اور اندھے پن سے بچا اور احتیاط کے پروگرام کے لیے 76.8 ملین کی رقم مختص کی گئی ہے۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ بنیادی سطح تک زیادہ سے زیادہ صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہم پرعزم ہیں اور دوسری جانب ہم کوشش کررہے ہیں کہ ہر علاقہ میں صحت کی سہولیات کو فعال کرکے اسے مزید بہتر بنائیں۔ ماہ جون 2021 کے بعد تقریبا 62 اسکیمز کے مکمل ہونے کا امکان ہے جو صوبہ میں صحت کی میعاری خدمات کے نیٹ ورک میں اضافہ ہوگا۔ عوام کی مطلوبہ ضروریات کے مطابق وسائل مختص کیے جاتے ہیں۔ اس عمل نے وسائل کے استعمال اور صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی کو بہتر کیا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اب میں کچھ اہم سنگِ میل سامنے لانا چاہوں گا جو رواں مالی سال میں ہم نے طے کیے ہیں: 192.788ملین کی رقم سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کراچی میں گیسٹرو اینٹیرولوجی اینڈ نیورو سائیکاٹرییونٹ کا قیام۔ 376.667ملین کی رقم سے لیاقتیونیورسٹی اسپتال حیدرآباد میں کارڈیو تھوراسک ڈپارٹمنٹ کا قیام۔ 219.989ملین کی رقم سے چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال، لاڑکانہ کے آپتھالمولوجی کے آپریشن تھیٹر کی تعمیرو اسٹرینتھنگ آف ٹراما سینٹر۔ 169.725ملین کی رقم سے پہلے سے موجود سرجیکل انتہائی نگہداشت یونٹ اور انستھیزیالوجی ڈپارٹمنٹ پیپلز میڈیکل کالج اسپتال، شہید بے نظیر آباد کو جدید خطوط پر استوار کیاگیا۔
گلستان جوہر کراچی میں 50بستروں کے میٹرنٹی ہوم/اسپتال کی تعمیر میں 323.644ملین کی رقم خرچ ہوئی۔ 477.550ملین سے پی آئی بی کالونی کراچی میں 100بستروں کے اسپتال کی تعمیر۔ 195.546ملین کی رقم سے پہلے سے موجود رورل ہیلتھ سینٹر کے تعلقہ ہیڈ کوارٹرز اسپتال کنری، ضلع عمر کوٹ کی اپ گریڈیشن۔ 1514.040ملین (قابلِ تجدید)سے SIUT کراچی کی توسیع۔292.211 ملین (قابل تجدید)کی رقم سے سر سی جے انسٹیٹیوٹ آف سائیکا ٹری، حیدرآباد میں توسیع اور بحالی بشمول نئے زنانہ وارڈ کی تعمیر، ری ہیبیلیٹیشن اینڈ او پی ڈی بلاک اور سائیکا ٹرک ایمرجنسی میں 50 بستروں کے وارڈ کی تعمیر۔ 328.077ملین(قابل تجدید)کی رقم سے سندھ گورنمنٹ اسپتال/ ٹی ایچ کیو اسپتال شہداد پور ضلع سانگھڑ کی اپ گریڈیشن۔ 94.242 ملین کی رقم سے حیدرآباد اور میرپورخاص میں ڈویژنل ویئر ہاس کی تعمیر کی دو اسکیمز۔ NICVD کے زیر انتظام10 سیٹیلائٹ سینٹرز اور 21چیسٹ پین کلینکس ہیں جس میں اس سال 1.5 ملین سے زائد افراد کا دل کے عارضہ سے متعلق بلا معاوضہ علاج معالجہ کیاگیا۔ 1743.695ملین (قابل تجدید)کی رقم سے ٹنڈو محمد خان، ٹنڈواللہ یار اور جامشورو میں ٹی ایچ کیو اسپتال کو ڈی ایچ کیو اسپتال کی سطح پر اپ گریڈیشن۔ 67.633 ملین کی رقم سے رورل ہیلتھ سینٹر دوڑ و تعلقہ اسپتال دوڑ کی اپ گریڈیشن۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ حکومت سندھ کے محکمہ ء صحت کے آٹو میشن کا قیام بذریعہ پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ کے ساتھ وسیع تناظر میں عمل میں لایا گیا ہے جس کی مندرجات ذیل ہیں: ویب پورٹل کا قیام۔ محکمہ ء صحت کے تمام ملازمین کی بائیو میٹرک تصدیق کا عمل کردیاگیا ہے جس کے ذریعہ ان کی آن لائن حاضری اور اسٹاف کی خدمات و سہولیات کا جائزہ لیاجائے گا۔ کمپری ہینسوہیومن ریسورس مینجمنٹ سسٹم کے ذریعہ ملازمین کے مکمل پروفائل، تقرر و تبادلے، ملازمین کی رخصت کا حساب، میڈیکل ری ایمبرسمنٹ، آن لائن ریکروٹمنٹ، رپورٹنگ اینڈ اینالاٹکس اور ڈیمانسٹریٹنگ پروفائل۔مزید براں دستاویزات کو محفوط بنانے کے لیے فائلز اور خطوط کی اسکینگ اور ان کی آن لائن دستیابی، اثاثہ جات کا مکمل اندراج جس میں محکمہ ء کے تمام متحرک اور غیر متحرک اثاثوں کا اندراج (سول اسپتال کے اثاثہ جات شامل کردئے گئے ہیں) ڈویلپمنٹ اسکیمز اور بجٹ کیمانیٹرنگ، ادویات کا انوینٹری مینجمنٹ سسٹم اور محکمہ ء صحت کے جی آئی ایس میں تمام طبی سہولیات بمع تفصیلات کااظہار ابھی زیر تکمیل ہے۔