اسلام آباد۔11اپریل (اے پی پی):وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت (فوسپاہ )نے خاتون سپروائزر کی ہراسیت کی شکایت پر انٹرنشپ پر کام کرنے والے کو قصوروار قرار دیا۔ وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت نے پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، عہدے کی کوئی قید نہیں۔ جمعہ کو وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت سیکرٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق ایک اہم فیصلے میں ،جس نے یہ حقیقت اجاگر کی کہ ہراسانی کا تعلق صرف طاقت یا عہدے سے نہیں ہوتا، وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت نے ناہید صغیر بنام سعود الرحمٰن کیس میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔
اس فیصلے سے واضح ہو گیا ہے کہ اعلیٰ عہدے پر فائز افراد بھی ماتحتوں کی جانب سے ہراسانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ناہید صغیر جو سندھ بینک میں برانچ مینجر ہیں، انہوں نے اپنے سابقہ انٹرنشپ کرنے والے سعود الرحمٰن کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔ انٹرن شپ 2017ء میں ہوئی تھی اور اس دوران سعود ان کے ماتحت کام کر رہا تھا۔ ناہید صغیر کے مطابق سعود نے انہیں بار بار تنگ کیا، ان کو نامناسب میسجز بھیجے، دفتر میں بلاوجہ آتا رہا اور ان پر نفسیاتی دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔
یہاں تک کہ انٹرن شپ کے ختم ہونے کے بعد بھی کئی سال تک انہیں ڈیجیٹل طریقوں سے ہراساں کرتا رہا اور بعد میں الٹا ناہید کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کی کوشش کی۔عدالت نے تمام شواہد جیسے واٹس ایپ میسجز، ویڈیوز، گواہوں کے بیانات اور ایف آئی اے کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ ناہید صغیر کے حق میں دیا۔
رپورٹ میں یہ بھی ثابت ہوا کہ ملزم نے جن فون نمبرز کے ذریعے پیغامات بھیجے تھے ، وہ سعود کے ہی تھے۔سعود الرحمٰن کو قصوروار قرار دے کر فوسپاہ نے اس پر 5 لاکھ روپے جرمانہ کیا جس میں سے 4 لاکھ 50 ہزار روپے ناہید صغیر کو بطور ہرجانہ دیئے جائیں گے۔
یہ کیس اس بات کا ثبوت ہے کہ ہراسانی صرف سینئر افسر کی طرف سے نہیں ہوتی، بلکہ ماتحت افراد بھی یہ جرم کر سکتے ہیں۔ خواتین چاہے کسی بھی عہدے پر ہوں، وہ بھی ہراسانی کا شکار ہو سکتی ہیں، اسی لیے ایسے واقعات کے تدارک لیے مضبوط اور موثر قانون کا ہونا بہت ضروری ہے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=580709