اسلام آباد ۔ 19 جنوری (اے پی پی) وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ حکومت کے پاس ملکی ضرورت کے مطابق گندم اور آٹے کے وافر ذخائر موجود ہیں، سپلائی چین متاثر ہونے اور بین الصوبائی سطح پر چیکنگ میکنزم کی وجہ سے سپلائی میں تعطل آیا، گندم اور آٹے کا مصنوعی بحران دو تین روز میں ختم ہو جائے گا، سندھ حکومت کو 7لاکھ ٹن گندم کی خریداری کرنا چاہیے تھی لیکن اس نے ہدف کے مطابق خریداری نہیں کی، خیبرپختونخوا کو پیر سے 10ہزار ٹن گندم روزانہ فراہم کی جائے گی،کل سے کھادوں پر 400روپے کا جی اے ڈی سی ختم کیا جا رہا ہے اس سے کھادوں کی تیاری پر اخراجات کم ہو جائیں گے۔ اتوار کو یہاں ایم ڈی پاسکو کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ گزشتہ دو تین روز سے ملک میں گندم اور آٹے کے بحران کا تاثر دیا جا رہا ہے، میں پورے اعتماد اور حقائق کے ساتھ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ملک کو گندم کی جتنی ضرورت ہے، اس سے زیادہ سٹاک ملک میں موجود ہے اور توقع ہے کہ سیزن کے اختتام تک ساڑھے آٹھ لاکھ ٹن گندم اگلے سال کے سٹاک میں جائے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وقت سرکاری شعبے اور پنجاب کو ملا کر 40لاکھ ٹن گندم حکومت کے پاس ہے، اگلے سال کے لئے حکومت نے 27ملین ٹن کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے وزیراعظم کی ہدایت پر ایک مربوط حکمت عملی کے تحت کام ہو رہا ہے ، زراعت کی ترقی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے اور اس مقصد کے لئے 300ارب روپے کا ترقیاتی پیکج بھی دیا گیا ہے۔ حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں پنجاب میں بوائی کے سیزن میں 50فیصد سرٹیفائیڈ بیجوں کااستعمال کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگلے سال کے لئے حکومت نے گندم کی خریداری کا 60لاکھ ٹن سے بڑھا کر 80لاکھ ٹن مقرر کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سپلائی چین متاثر ہونے اور بین الصوبائی سطح پر چیکنگ میکنزم کی وجہ سے سپلائی میں تعطل آیا۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر جہانگیر ترین اور میں نے موثر رابطہ کاری کی، جس کے اچھے نتائج سامنے آئے، کراچی کی روزانہ کی ضرورت 9ہزار ٹن ہے۔ ہفتہ کے روز این ایل سی کے ذریعے کراچی کے لئے 9ہزار ٹن گندم سندھ حکومت کے حوالے کی، اتوار کے دن 10ہزار ٹن گندم سندھ حکومت کو دی گئی۔ ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے یہ خلاءسامنے آیا، جس کو موثر انداز میں حل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو 7لاکھ ٹن گندم کی خریداری کرنا چاہیے تھی لیکن اس نے ہدف کے مطابق خریداری نہیں کی۔ آج بھی میری صوبائی فوڈ سیکرٹری کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے اور انہیں کہا ہے کہ اگر زیاد ہ ضرورت ہے تو ہمیں بتایا جائے۔ سندھ کو اگر ضرورت ہے تو پاسکو کے گوداموں سے مزید پچاس ہزار سے 1لاکھ ٹن گندم فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا روانہ ڈیڑھ ہزار ٹن گندم اٹھا رہا تھا، بین الصوبائی چیک کی وجہ سے خیبرپختونخوا کی سپلائی متاثر ہوئی۔ اس صورتحال کے تناظر میں 4,5ہزار ٹن گندم سرکاری اور 4ہزار میٹرک ٹن گندم نجی شعبہ فراہم کرے گا۔ پیر کے روز سے خیبرپختونخوا کو 10ہزار ٹن گندم فراہم کی جائے گی جس سے قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی۔ پاسکو نے خیبرپختونخوا کے لئے ساڑھے 4لاکھ ٹن کوٹہ مختص کیا جس میں اب تک اڑھائی لاکھ گندم فراہم کی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کو ایک لاکھ ٹن اضافی گندم اپنے ذخائر سے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں بھی گندم کی قلت نہیں ہے، روزانہ کی سپلائی 21ہزار سے بڑھا کر 25ہزار کر دی گئی ہے ۔ گندم کی صورتحال کے حوالے سے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ دو ماہ پہلے چمن بارڈر کے راستے 40ہزار ٹن ماہانہ کی شکایات پر بھرپور کارروائی کی گئی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیا گیا۔ اسمگلنگ پر قابو پانے کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت گندم اور آٹے کی ضرورت کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ پچھلے سال گندم کی 12لاکھ ٹن کم پیداوار ہوئی تھی جس کی وجہ سے گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا گیا تھا تا کہ اگر کوئی کمی ہو تو ہمارے پاس وافر سٹاک موجود ہو۔ انہوں نے کہا کہ گندم اور آٹے کا مصنوعی بحران دو تین روز میں ختم ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ زراعت کی ترقی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ گزشتہ 10برسوں میں زراعت کے شعبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ وزیراعظم کی ہدایت پر زراعت کی ترقی کے لئے جامع اقدامات کیے گئے اور اس ضمن میں 300ارب روپے کا پیکج بھی جاری کیا گیا، کل سے کھادوں پر 400روپے کا جی اے ڈی سی ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے اس سے کھادوں کی تیاری پر اخراجات کم ہو جائیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ غذائی سلامتی صرف پاکستان کا نہیں، عالمی مسئلہ ہے۔ 2047ءمیں ہماری آبادی 40کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمیں ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہو گی، مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے ،فوڈ سیکیورٹی اور ملکی معیشت کے لئے تمام جماعتوں کو اقتصادی چارٹر پر متفق ہونا پڑے گا۔ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ صوبوں کے ساتھ کر رابطہ کررہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی حوصلہ شکنی کےلئے اگلے سال 80لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ افغانستان کو گندم کی سمگلنگ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ افغانستان کی کل ضرورت 6سے 7لاکھ ٹن ہے۔ افغانستان کو گندم کی سمگلنگ روکنے کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ باڑ جیسے ہی مکمل ہو گی، اس سے ہماری صلاحیتیں بہتر ہو جائیں گی۔ گندم کی درآمد سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہمیں پیوستہ سال سے 37لاکھ ٹن گندم آیا تھا، ہم نے یہ فیصلہ اپنے زمینداروں اور کسانوںکے مفاد میں کیا تھا۔ تاہم جب ہمیں گزشتہ سیزن میں 12لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کا اندازہ ہوا تو برآمد پر پابندی لگا دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی درآمد مرحلہ وار کریں گے تا کہ نئی فصل کو نقصان نہ ہو اور ہمارے زمیندار کو پوری قیمت ملے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پیر کو کاٹن کے اہم سٹیک ہولڈر سے بات چیت کریں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ چکی کے آٹے کے نرخ مختلف ہوتے ہیں کیونکہ یہ ریگولیٹڈ سیکٹر نہیں ہے، چکی کا آٹا کل کھپت کا 5فیصد ہے، اس سیکٹر میں قیمتوں کی نگرانی کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔