وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد مشیر برائے خزانہ، محصولات و اقتصادی امور عبدالحفیظ شیخ کی مشترکہ پریس کانفرنس

144
APP47-14 ISLAMABAD: May 14 - Advisor to PM on Finance, Dr Abdul Hafeez Sheikh along with Special Assistant to the Prime Minister for Information and Broadcasting, Dr. Firdous Ashiq Awan, Chairman of the Federal Board of Revenue, Syed M Shabbar Zaidi and Minister of State for Revenue, Barrister Hammad Azhar addressing a joint press conference at FBR. APP photo by Saleem Rana

اسلام آباد ۔ 14 مئی (اے پی پی) وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، محصولات و اقتصادی امور عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے اثاثہ جات ظاہر کرنے کی سکیم میں عوامی عہدوں پر تعینات افراد اوران کے زیرکفالت افراد کے علاوہ ہر پاکستانی فائدہ اٹھا سکے گا، پیسے والے لوگ اثاثے ظاہر نہیں کرتے تو انہیں سزائیں دی جائیں گی۔ بے نامی اثاثے رکھنے والوں کے لیے آخری موقع ہے اس کے بعد سخت کارروائی ہوگی۔ بیرون ملک اب تک ڈیڑھ لاکھ بینک اکاؤنٹس کی معلومات ملی ہیں ملک سے باہر پڑے اثاثے ڈکلیئر کئے جانے کی صورت میں سفید شدہ دھن کو بینک اکاؤنٹ میں رکھا جائے گا، ملک سے باہر لے جائی گئی رقم پر 4 فیصد دے کر انہیں وائٹ کیا جا سکتا ہے اور وہ رقم پاکستان کے بینک اکاؤنٹ میں رکھنا ہو گی تاہم اگر کوئی شخص رقم وائٹ کرا کر پاکستان سے باہر ہی رکھنا چاہتا ہے تو ان کیلئے وائٹ کرنے کی شرط 6 فیصد ہو گی، 30 جون تک سکیم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ بات انھوں نے منگل کو یہاں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں بتائی۔معاون خصوصی اطلاعات و نشریات ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان، وزیر مملکت حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے مختلف نکات کی منظوری دی ہے، اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کی بھی منظوری دی گئی۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ریونیو جمع کرنے کے لئے نہیں معیشت کی بہتری کے لئے سکیم کی منظوری دی گئی، اسکیم بہت ہی آسان ہے تاکہ لوگوں کو مشکلات پیش نہ آئیں۔ سکیم کا فلسفہ یہ نہیں کہ لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جائے بلکہ بزنس کرکے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ، اس سکیم میں 30 جون تک لوگ شامل ہو سکتے ہیں اور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، وہ لوگ جو عوامی عہدہ رکھتے ہیں یا ماضی میں رہ چکے ہیں وہ اس کا حصہ نہیں بن سکتے، سرکاری عہدہ رکھنے والے اور ان کے زیرکفالت افراد بھی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ مشیرخزانہ نے کہاکہ سکیم کے تحت 4 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر اثاثة جات ڈکلئیر ہوں گے۔ رئیل سٹیٹ کیلئے یہ شرح ایف بی آر کی طرف سے مقررکردہ ٹیکس کی شرح سے 1.5 فیصد زیادہ رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر کئے گئے منقولہ اثاثے پاکستان لانا اور بینک میں رکھنا ہوں گے ۔ جو لوگ اثاثے ڈکلئیر کرکے انہیں پاکستان نہیں لانا چاہتے انہیں مجموعی طور پر 6 فیصد کی شرح سے ٹیکس دینا پڑے گا۔ بے نامی اکاؤنٹس اور جائیداد سے متعلق بھی سکیم کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بے نامی قانون کو لاگو کرنے کے لئے یہ اقدامات فائدہ مند ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں بے نامی قانون کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت بے نامی اثاثے ظاہر نہ کرنے کی صورت میں انہیں ضبط کیا جاسکتا ہے اس لیے یہاں پر سہولت دی جارہی ہے کہ بے نامی اثاثو ں کو وائٹ کرلیا جائے اس سے پہلے کہ بے نامی کا قانون حرکت میں آجائے، بے نامی پراپرٹی وائٹ نہیں کی جاتی تو قانون کے تحت ضبط کی جا سکے گی۔ آئی ایم ایف سے متعلق سوال پرمشیرخزانہ نے کہاکہ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات گزشتہ 7، 8 ماہ سے چل رہے تھے۔ مذاکرات مثبت انداز میں ہوئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوا ہے، آئی ایم ایف کے بورڈ سے منظوری ہونا باقی ہے۔انہوں نے کہاکہ اخراجات میں کمی ، ٹیکس وصولی میں اضافہ ، ادارہ جاتی اصلاحات اوربرآمدات میں اضافہ ہماری ضرورت ہے اور یہ تمام کام ہمارے لئے بھی بہتر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بجلی اورگیس کی قیمت کا بوجھ غریب عوام پر پڑنے نہیں دیا جائے گا۔ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر قیمتوں میں اضافہ کا کوئی بوجھ نہیں پڑے گا، آئندہ بجٹ میں بجلی کی مد میں 216 ارب روپے کی سبسڈی دی جائیگی اس کے علاوہ سماجی تحفظ کی چھتری تلے پروگراموں کیلئے 180 ارب روپے بجٹ میں رکھے جائیں گے، 75 فیصد بجلی وگیس صارفین پر قیمتوں میں اضافہ کا کوئی فرق نہیں پڑے گا، رواں سال سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کیلئے 550 سے لیکر600 ارب جبکہ مالی سال 2020-21ء میں 700 سے لے کر800 ارب روپے مختص کئے جائیں گے، کوشش کریں گے کہ معاشرے کے کمزورطبقات کو قیمتوں میں ہونے والے اضافہ کے اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ پیسے والے لوگ اثاثے ظاہر نہیں کرتے تو انہیں سزائیں دی جائیں گی۔ بے نامی رکھنے والوں کے لیے آخری موقع ہے اس کے بعد سخت کارروائی ہوگی۔ بیرون ملک اب تک ڈیڑھ لاکھ بینک اکاؤنٹس کی معلومات ملی ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں کچھ بنیادی نقائص ہیں جنہیں درست کرنا ہے، شروع سے لے کر اب تک برآمدات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ شروع سے اب تک ٹیکس وصولیوں پر کام نہیں کیا گیا۔ بڑے نقائص کو درست نہ کیا تو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین شبر زیدی نے اس موقع پر کہا کہ معاشی سرگرمیوں کا ڈیٹا ایک جگہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈیٹا یکجا کرنے سے آسانی اور فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیٹا کو مربوط کرنا بہت ضروری ہے، اس وقت ایف بی آر، ایس ای سی پی، نادرا اور دیگر اداروں کے ساتھ ڈیٹا موجود ہے جو مربوط نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ٹیکس دینے والے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اہداف کے حصول کیلئے میڈیا کو ہمارا ساتھ دینا چاہئے، ہماری بنیادی ہدف پاکستان کی معیشت کو دستاویزی بنانا ہے، معیشت کو دستاویزی بنانے کے بعد ہی ٹیکس کی بنیاد میں اضافہ ہو گا، ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ اس کے علاوہ ٹیکسیشن کے نظام کو سادہ بھی بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہا کہ سکیم کا مقصد ٹیکس وصولی میں اضافہ نہیں، کاروبار کو دستاویزی بنانا ہے، سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو ہر صورت ٹیکس ریٹرنز دینا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم ماضی کی سکیم سے مختلف ہے، گذشتہ سکیم میں ٹیکس کی شرح کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں موجودہ سکیم میں کالے دھن کو پیداواری شعبہ کی طرف مرکوز کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ ملاقات میں چاروں صوبوں کے نمائندے موجود تھے، تمام صوبوں نے مالیاتی ڈسپلن کے عزم کا اعادہ کیا ہے، تمام امور کو اتفاق رائے سے آگے بڑھایا جائے گا۔