اسلام آباد۔20اگست (اے پی پی):گندھارا ریسورس سنٹر (جی آر سی) پاکستان کے سینٹر فار کلچر اینڈ ڈویلپمنٹ (سی ٹو ڈی) کے گراس روٹ پراجیکٹ نے ٹیکسلا گارڈنز میں اپنے نئے دفتر کا افتتاح کیا ہے تاکہ تین ہزار سال سے زیادہ پرانی ٹیکسلا کے قدیم شہر کے کونے کونے میں پائی جانے والی انسانی تہذیبوں پر تحقیق اور ورثے کی تلاش کے مشن کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ٹیکسلا چوپال کے زیراہتمام یہاں ٹیکسلا گارڈنز میں نئے جی آر سی پاکستان کے دفتر کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جو جی آر سی کا ذیلی ادارہ ہے۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر ٹیکسلا گارڈنز نقاش احمد اس موقع پر مہمان خصوصی تھے، ایجنسی فار بارانی ایریاز ڈویلپمنٹ (آباد)کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور این آر ایس پی سے وابستہ ملک محمد فتح خان اور سابق سب ڈویژنل فارسٹ آفیسر ڈاکٹر میمونہ ولی محمد سمیت دیگر نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ جی آر سی پاکستان کی کور کمیٹی کی رکن اور ڈائریکٹر سی ٹو ڈی سارہ محمود نے اپنے ابتدائی کلمات میں تمام مہمانوں اور شرکا کو خوش آمدید کہا اور سنٹر کے وژن کو مختصرا ًبیان کیا۔
انہوں نے کہا کہ جی آر سی پاکستان کو ایک سی ٹو ڈی پراجیکٹ کے طور پر جانا جاتا ہے جسے ٹیکسلا میں شروع کیا جا رہا ہے جس کی توجہ گندھارا تہذیب پر مرکوز ہے جو افغانستان سے پاکستان تک ایک وسیع علاقہ کا احاطہ کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی آر سی ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ٹیکسلا کی تاریخ کو دستاویز کرنے کے لیے ایک خصوصی تحقیق شروع کرنے کی کوشش ہے۔
ٹیکسلا گارڈنز کے حکام کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے پراجیکٹ کے قیام میں جی آر سی ٹیم کی بہت مدد کی کیونکہ ٹیکسلا گارڈنز کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نقاش احمد نے اس سلسلے میں اپنا بھرپور تعاون کیا۔ سارہ محمود نے کہاکہ یوای ٹی اور ہائی ٹیک جیسی یونیورسٹیوں کے ساتھ جی آر سی تعاون کرے گا کیونکہ نوجوانوں کو ٹیکسلا کے ورثے کو متعارف کرانے اور اس کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرکز نے طلبا کو 3ہزار سال سے زیادہ پرانی تہذیب کے فن تعمیر کی تکنیکوں پر تحقیق میں بھی شامل کیا ہے جو ابھی تک برقرار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گندھارا تہذیب میں بدھ مت کا بہت بڑا کرداررہا ہے جبکہ ہر سال ہزاروں سیاح ٹیکسلا آتے ہیں۔ مرکز کے پاس ماہرین کی ایک قابل ٹیم ہے جس کا متنوع پس منظر اور گندھارا کی تاریخ سے تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹرسی ٹو ڈی ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ نے جی آر سی پاکستان کو متعارف کرانے کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لائیں جس کی وجہ سے یہ ٹیکسلا میں ایک برانڈ کے طور پر ابھراہے۔
جی آر سی پاکستان کے پراجیکٹ مینیجر ملک اشتر علی نے کہا کہ ٹیکسلا کی قدیم تکشالہ یونیورسٹی کہا جاتا ہے جہاں ہزاروں طلبا تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور 5 ہزار فیکلٹی اراکین رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکسلا یونیورسٹی میں قدیم زمانے میں وسطی ایشیا، یونان، مصر اور یورپ سے لوگ پڑھنے آتے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سومناتھ اور برصغیر کی دیگر قدیم یونیورسٹیوں کی بنیاد ٹیکسلا یونیورسٹی کے گریجویٹس نے رکھی تھی جبکہ جنڈیال میں زرتشتی مندر برصغیر کا قدیم ترین مندر تھا اور آذربائیجان کے ٹاورز آف سائیلنس سے بھی پرانا ہے۔ ملک اشتر علی نے کہا کہ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ نے اپنا آخری وقت اسی خطے میں گزارا ۔
مزید یہ کہ پی او ایف واہ نے گندھارا کے کاریگروں کے لیے ایک تربیتی ورکشاپ کا بھی انعقاد کیا جبکہ جی آر سی پاکستان نے یونیسکو کے تعاون سے گندھارا اورنج فیسٹیول کا انعقاد بھی کیا تاکہ مقامی ثقافتی نمونوں اور ورثے کی تاریخ کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جی آر سی پاکستان خطے کی زرعی مصنوعات کو بھی فروغ دینا چاہتا ہے۔ ٹیم ممبر جی آر سی پاکستان افتخار الدین صدیقی نے بھی تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور ان کی شرکت پر شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہاکہ ٹیکسلا سٹی کی بہت اہمیت ہے اور اس کے ورثے کو نوجوان نسل تک پہنچانا ہمارا مشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں رابطے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری آئی ہے اور محفوظ ثقافتی مقامات تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ سابق ڈی جی آباد ملک محمد فتح خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ موجودہ نسل گندھارا تہذیب کی جڑیں بھول چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہم نوجوانوں کو گندھارا تہذیب میں جڑوں سے آگاہ کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
محمد فتح خان، جو نیشنل رورل سپورٹ پروگرام سے بھی وابستہ ہیں، نے کہا کہ نیشنل رورل سپورٹ پروگرام کے اقدامات کے تحت مقامی کمیونٹیز اور دیہات آگاہی ، رہنمائی اور ترقی میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام جی آر سی پاکستان کی جانب سے شجرکاری کے لیے لاکھوں کی تعداد میں پودے لگانے ،کمیونٹی موبلائزیشن اور گندھارا تہذیب کے تحفظ کے بارے میں بیداری میں بھی معاونت فراہم کرے گا۔
پہلی خاتون ماہرجنگلات ڈاکٹر میمونہ ولی محمد نے بدھ ازم اور فن تعمیر کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا۔انہوں نے کہاکہ میں نے ایک عورت کے طور پر ثابت کیا کہ خواتین جنگلات میں کام کر سکتی ہیں۔ خواتین کو آنے والی نسل کو ماحولیات اور موسمیاتی خواندہ کے طور پر تعلیم دینے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
مہمان خصوصی نقاش احمد، پروجیکٹ ڈائریکٹر ٹیکسلا گارڈنز نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ جی آر سی پاکستان اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکسلا کا ورثہ اور تاریخ ایک میراث ہے جسے اگلی نسل تک منتقل کیا جانا چاہیے۔ ہمیں نوجوان نسل کو موبائل فون سے باہر لانا چاہیے اور انہیں سیاحت اور تہذیب کے سیکھنے میں شامل کرنا چاہیے ۔ جی آر سی کا مشن ایک جذبہ ہے اور ٹیکسلا گارڈنز ہر طرح سے اس کی حمایت کرے گا اورجی آر سی کی کوششوں کی وجہ سے اس کے مرکزی پارک کا نام گندھارا پارک رکھا گیا ہے ۔
ٹیکسلا چوپال کے رکن راجہ نور محمد نظامی نے کہا کہ ٹیکسلا میں ہندو مت، جین مت اور بدھ مت کے آثار پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے ٹیکسلا کے ہر کونے کا دورہ کیا اور محسوس کیا کہ اس کے قدیم ورثے کا 95 غیر دریافت ہے۔ نظامی نے کہا کہ اس علاقے میں غزنوی دور اور بابا گرو نانک کے سکھ دور کی باقیات موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک بہت اہم علاقہ ہے اور سیاحت کی ترقی سے خطے کو بہتر بنانے اور قومی خزانے کو بھاری زرمبادلہ فراہم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ چوپال کے دیگر اراکین بشمول پرویز خان، آرٹسٹ، اور لینڈ اسکیپ پینٹر، ریاض احمد اور شیخ صلاح الدین نے بھی شرکا سے خطاب کیا۔ مہمان خصوصی پراجیکٹ ڈائریکٹر ٹیکسلا گارڈنز نقاش احمد نے جی آر سی پاکستان کے دفتر کا افتتاح کیا اور بعد ازاں اس کے احاطے میں شجر کاری کی ۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=380933