رواں سال فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر آنا اور ترقی پذیر ممالک کیلئے ڈمیج فنڈ کا قیام پاکستان کی اہم کامیابیاں ہیں، ترجمان دفتر خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ

118
Mumtaz Zahra Baloch
Mumtaz Zahra Baloch

اسلام آباد۔29دسمبر (اے پی پی):پاکستان نے کہا ہے کہ رواں سال فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر آنا اور ترقی پذیر ممالک کے لئے کوپ ۔27 میں ڈمیج فنڈ کا قیام پاکستان کی اہم کامیابیاں ہیں، پاکستان کے دوست ممالک اور شراکت داروں کے ساتھ اعلیٰ سطحی کے تبادلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان نے چین، ترکیہ، سعودی عرب اور عالم اسلام کے ساتھ اپنی روایتی شراکت داری کو مزید مضبوط کیا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے، پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کے تصفیہ کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری رکھے گا۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلنا، کوپ 27 کے اجلاس میں ڈمیج فنڈ کا قیام اور اعلیٰ سطح کے تبادلوں میں اضافہ 2022 کے دوران پاکستان کی فعال کثیر الجہتی سفارت کاری کے اہم نتائج میں سے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ختم ہونے والے سال کے دوران پاکستان انفرادی حیثیت میں اور بین الاقوامی گروپوں کے رکن کے طور پر ایک فعال کثیرالجہتی سفارت کاری کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کثیرالجہتی ترتیبات میں اپنی سفارتی کوششوں کے نتائج کو حوصلہ افزاءقرار دیتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم اس سال اکتوبر میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر آنا پاکستان کی اہم کامیابی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور اہم کامیابی ترقی پذیر ممالک کے لئے COP27 میں ڈمیج فنڈ کا قیام تھا۔ ترجمان نے2022 کو سفارت کاری کے لیے ایک فعال سال قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اپنے قریبی شراکت داروں اور دوستوں کے ساتھ روابط بڑھانے کی پالیسی پر عمل کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سفارتی کوششوں کا مقصد اس کے بین الاقوامی پروفائل کو بڑھانا اور پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس کے بیرونی تعلقات کو بحال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے سال کے دوران پاکستان کے دوست ممالک اور شراکت داروں کے ساتھ اعلیٰ سطحی کے تبادلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال کے دوران سابق وزیراعظم نے چین اور روس کا دورہ کیا جبکہ سابق وزیر خارجہ نے رومانیہ اور سپین کے دورے بھی کئے۔

علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایشیا، یورپ اور امریکہ کے دورے کئے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان، آسٹریا، چین، کمبوڈیا، ایتھوپیا، جرمنی، ایران، انڈونیشیا، قازقستان، قطر، سعودی عرب، سنگاپور، ترکی، تاجکستان، ٹوگو، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور ازبکستان کے ساتھ اعلیٰ سطح کے دوروں کے تبادلے نے ان ممالک کے ساتھ مفاہمت کو فروغ دینے میں مدد کی۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل، ایس سی او کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے پاکستان کے دوروں سے بھی میڈیا کو آگاہ کیا جنہوں نے پاکستان اور ان تنظیموں کے درمیان تعاون کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے ارجنٹائن، ایتھوپیا، یورپی یونین، ہنگری، انڈونیشیا، کرغز ریپبلک، لکسمبرگ، مالٹا، میکسیکو، نیدرلینڈز، سعودی عرب، سنگاپور، ترکی اور ازبکستان کے ساتھ دو طرفہ ڈائیلاگ میکنزم کا انعقاد کیا۔ اس میں لکسمبرگ کے ساتھ پہلا ڈائیلاگ بھی شامل تھا۔ ترجمان نے کہا کہ سال کے دوران پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مثبت پیش رفت ہوئی جس میں ستمبر اور دسمبر میں وزیر خارجہ کے دورہ امریکہ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے سینیٹ سے تصدیق شدہ سفیر کو چار سال بعد پاکستان میں تعینات کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ملٹری ہارڈ ویئر کی فراہمی کے لیے پاکستان کی دیرینہ درخواست پر اتفاق کیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ تعلقات میں ”ڈی ہائفینیشن“ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی توجہ اقتصادی تعاون کو فروغ دینا، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تعاون اور اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مواقع تلاش کرنا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے چین، ترکیہ، سعودی عرب اور عالم اسلام کے ساتھ اپنی روایتی شراکت داری کو مزید مضبوط کیا، یہ تعلقات باہمی اعتماد اور دوستی پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افریقہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات دوطرفہ تجارت اور سیاسی، پارلیمانی، فوجی اور سیکورٹی تعاون کے حوالے سے مثبت رجحان دیکھ رہے ہیں، افریقہ سے ترسیلات زر 400 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ 15 اگست 2021 سے پاکستان نے عبوری افغان حکومت کے ساتھ مسلسل اور عملی روابط کو جاری رکھا ہے، اس حوالے سے انہوں نے تاشقند میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کے نومبر میں کابل کے دورے کا ذکر کیا۔ کابل میں پاکستان کے ہیڈ آف مشن پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے سفارت کاروں اور مشنز کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے بارے میں افغان عبوری حکومت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔

ترجمان نے ان تمام ممالک اور بین الاقوامی اداروں کا شکریہ ادا کیا جو پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد انسانی امداد کے لیے آگے آئے جن میں بیلجیئم، چین، ڈنمارک، یورپی یونین، فرانس، جرمنی، یونان، انڈونیشیا، اٹلی، ایران، اردن، ملائیشیا، نیپال، اومان، فلسطین، قطر، روس، سعودی عرب، سنگاپور، تاجکستان، ترکیہ، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ، ازبکستان اور بین الاقوامی امدادی ادارے اور تنظیمیں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال پاکستان نے 22 اور 23 مارچ کو اسلام آباد میں 48 ویں او آئی سی وزارتی کانفرنس کی میزبانی بھی کی جس میں او آئی سی کے اراکین اور مبصرین شریک ہوئے جبکہ 24 وزراء خارجہ نے وزراء خارجہ کے کونسل کے اجلاس میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 52 ماہ کی سخت جانچ پڑتال کے بعد ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان کا یہ موقف ہے کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اس وقت تک مکمل طور پر معمول پر نہیں آسکتے جب تک کہ تصفیہ طلب تنازعات بالخصوص جموں و کشمیر کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوجاتا، بھارت کی ہندوتوا نظریئے سے متاثر قوم پرست حکومت معمول کے دو طرفہ تعلقات میں رکاوٹیں کھڑی ڈال رہی ہے اور اس کا اقلیتوں اور بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ لوگوں کو دبانا پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں گزشتہ سال جون میں لاہور حملے میں بھارتی ملوث ہونے کے بارے میں ایک ڈوزیئر جاری کیا اور عالمی برادری کی توجہ پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی میں بھارتی مداخلت کی طرف مبذول کرائی۔

انہوں نے 9 مارچ 2022 کو پاکستانی علاقے میں بھارت کے سپرسونک میزائل فائر کرنے کا واقعہ بھی رونما ہوا، اس واقعہ نے بھارت کے اسٹریٹجک ہتھیاروں سے نمٹنے میں سنگین نوعیت کی تکنیکی خامیوں اور نظامی خامیوں کا انکشاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال کے دوران بھی بھارت کشمیریوں کی ان کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد کو دبانے کے لیے اپنی فوجی طاقت کا استعمال کرتا رہا۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کے تصفیہ کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ سال رواں کے دوران بھی بھارت کشمیریوں کی ان کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرتا رہا ہے، پاکستان نے پورے سال کے دوران تمام متعلقہ دوطرفہ اور علاقائی فورمز کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی کشمیری عوام کے لیے آواز اٹھائی، پاکستان نے بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خاتمے اور کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ایک منصفانہ حل کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی وزراءکونسل کے 48 ویں اجلاس اور جموں و کشمیر پر او آئی سی رابطہ گروپ نے تنازعہ جموں و کشمیر پر اہم قراردادیں منظور کیں اور ایکشن پلان پر اتفاق کیا۔ ترجمان نے کہا کہ اس سال 11 دسمبر کو او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے مظفر آباد اور لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا جو بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں تنظیم کی مسلسل تشویش کا ایک اور مظہر تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کے تصفیہ کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری رکھے گا۔