پاکستان امن کی خاطر اپنے انسداد دہشتگردی کے اقدامات افریقی ممالک کے ساتھ شیئر کرنے کو تیار ہے،مندوب منیر اکرم

146
delegate Munir Akram
delegate Munir Akram

اقوام متحدہ ۔22جنوری (اے پی پی):پاکستان امن اور استحکام کی بحالی کی کوششوں کی حمایت میں افریقی ممالک کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے اپنے تجربات کا اشتراک کرنے کو تیار ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں براعظم افریقا میں انسداد ہشت گردی کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔انہوں نےکہا کہ گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول میں رہا ہے ۔

القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف ملک کی کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان برادر افریقی ریاستوں کے ساتھ اس حوالہ سے اپنے تعاون کو مضبوط کرنے کا خواہاں ہے،اس حوالے سے سلامتی کونسل کے اندر اور اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے دفتر ( یو این او سی ٹی )کے ساتھ مل کر اپنے افریقی شراکت داروں کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے تجربے کا اشتراک کرنے اور ضروری ادارہ جاتی ڈھانچے قائم کرنے اور پائیدار امن اور استحکام کو بحال کرنے کی کوششوں بارے افریقا کی استعداد کار بڑھانے کو تیار ہے۔

مندوب نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے بھاری قیمت ادا کی ہے جس میں 80 ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانیاں اور ملکی معیشت کو پہنچنے والا نقصان شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرنے کے بعدکالعدم تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو ہماری سرحدوں کے پار محفوظ پناہ گاہوں سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں ۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ بڑی حد تک پاکستان کی کوششوں کی وجہ سے افغانستان میں اپنے بنیادی ڈھانچے کے خاتمے کے بعد القاعدہ کی کئی ذیلی تنظیمیں دیگر مقامات پر ابھری ہیں جن میں شمالی افریقا اور سب صحارا افریقا شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شام اور عراق میں داعش کو ختم کر دیا گیا لیکن اس کی ذیلی تنظیموں نے افغانستان اور ساحل کے علاقوں میں سر اٹھایا ہے، القاعدہ اور داعش پر پابندیوں کی کمیٹی نمبر 1267کی مانیٹرنگ ٹیم نے ان دہشت گرد گروپوں اور ان سے وابستہ افراد سے دنیا کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ مندوب نے کہا کہ ہمیں دہشت گردی کے خطرے سے مل کر عالمی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر مبنی ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے ذریعے نمٹنا چاہیے ، ہم سب اس لڑائی میں ایک ساتھ ہیں۔

انہوں نے اس سلسلے میں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک موثر سکیورٹی ڈھانچہ قائم کرنے کے لئے علاقائی نقطہ نظر پیش کیا اور کہا کہ اس مقصد کے لئے سلامتی کونسل کو افریقی یونین کے مشنز کی مالی اعانت پر تیزی سے اتفاق کرنا چاہیے اور اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس حوالے سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے متعلقہ قوانین اور معاہدوں ، تربیت اور اقوام متحدہ کے اضافی ہم منصبوں کے ساتھ افریقی یونین کی کس طرح مدد کی جا سکتی ہے۔

پاکستانی مندوب نے افریقی یونین اور اس کی ذیلی علاقائی تنظیموں پر بھی زور دیا کہ وہ دیگر علاقائی تنظیموں جیسے کہ لیگ آف عرب سٹیٹس اور آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن ( او آئی سی) کے ساتھ شراکت داری کے امکانات کو تلاش کریں۔ انہوں نے سلامتی کونسل کی متعدد پابندیوں کی حکومتوں کی کارکردگی اور اثرات پر نظرثانی کرنے پر زور دیا اور اس بات کی نشاندہی کہ کہ ایسی پابندیاں اکثر صورتوں میں متعلقہ ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات پر قابو پانے میں بہت کم کردار ادا کرتی ہیں،

اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہمیں دہشت گردی کے نئے سائبر ٹولز بشمول ڈارک ویب اور کرپٹو کرنسیز( جن کو بنیاد پرستی کی مہمات، تشدد پر اکسانے، دہشت گردی کی مالی معاونت، پروپیگنڈہ اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات فراہم کرنے کے لیے تیزی سے استعمال کیا جا رہا ہے ) پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ، اس کے ساتھ ساتھ افریقا میں دہشت گردی کی بنیادی وجوہات بشمول غربت، معاشی مشکلات، ناقص گورننس، چھوٹے ہتھیاروں کا پھیلاؤ، منظم جرائم پیشہ گروہوں کی موجودگی، غیر قانونی معیشت، منشیات کی سمگلنگ ، وسائل کا استحصال، اور بار بار کی بیرونی مداخلتوں پر توجہ دینی چاہیے ۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ پاکستانی فوجی دستے 1960 کے عشرے سے افریقا میں استحکام کے فروغ کی کوششوں میں شریک ہیں اور وہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے امن مشنز میں کانگو، وسطی افریقی جمہوریہ ، مالی ، سوڈان اور جنوبی سوڈان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

قبل ازیں بحث کا آغاز کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے کہا کہ افریقا عالمی دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے، اس لعنت سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی وعدوں پر عمل درآمد کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ رکن ممالک کی مسلسل کوششوں کے باوجود سب صحارا افریقا میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی اموات عالمی سطح پر ایسی تمام اموات کا تقریباً 59 فیصد ہیں