پاکستان چین کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے،سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کا کلیدی منصوبہ ہے، پاکستانی اور چینی میڈیا کے درمیان قریبی تعاون چاہتے ہیں، وزیراعظم عمران خان

186
پاکستان چین کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے، وزیراعظم عمران خان کی چینی میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد۔1جولائی (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے، سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ اقدام میں ایک کلیدی منصوبہ ہے، سی پیک منصوبوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی ہے، آئندہ دورہ چین کا منتظر ہوں، پاکستان اور چین کے میڈیا کے درمیان قریبی تعاون کے خواہاں ہیں، چین کی کیمونسٹ پارٹی اور قیادت کو سو سال کی تقریبات پر مبارکباد دیتا ہوں ۔

وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار چینی میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا پاکستان اور چین کے تعلقات انتہائی قریبی اور گہرے ہیں۔ ہمارے میڈیا اور ثقافتی تعلقات اتنے قریبی نہیں ہیں جتنے ہمارے سیاسی تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چینی میڈیا سے آج کی ملاقات کا مقصد میڈیا رابطوں کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان میں ہم صدر شی جن پنگ کو جدید دور کا ایک بڑا سیاستدان تصور کرتے ہیں۔ پاکستانی دو لحاظ سے ان سے متاثر ہیں، ایک تو کرپشن کے خلاف ان کی جنگ ہے ۔ چینی صدر کی انسداد بدعنوانی کی مہم بہت کامیاب ہے اور پاکستانی اس سے بہت متاثر ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ چین کا ایک اور کارنامہ ایک بڑی تعداد میں غریبوں کو غربت سے نکالنا ہے۔ چین نے 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے۔ حال ہی میں چین نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اس حوالے سے انتہائی کم وقت میں غیر معمولی کامیابی ہے۔

میرا خیال ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے سی پیک منصوبوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی ہے۔ میں آئندہ ہفتے گوادر جا رہا ہوں۔ میں وہاں سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار کا جائزہ لوں گا۔ میں وہاں چینی کارکنوں سے ملاقات کروں گا۔

وزیر اعظم عمران خان نے چین کے مجوزہ دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں اگلے ایک دو ماہ میں اپنے چین کے دورے کا منتظر ہوں۔اس دورے میں پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر بات کروں گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی)ایک منفرد ماڈل ہے ، ہمیں اب تک یہ بتایا گیا کہ مغربی جمہوریت کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بہترین نظام ہے لیکن سی پی سی نے ایک ایسا متبادل نظام دیا ہے جس نے تمام مغربتی جمہوریتوں کو مات دی ہے۔

انہوں نے کہاکہ جس معاشرے میں حکمران طبقہ کا احتساب ہو اور میرٹ ہو وہ کامیاب ہوتا ہے۔ اب تک یہ خیال تھاکہ جمہوریت کے ذریعے حکمران میرٹ پرمنتخب ہوتے ہیں اور پھر اس قیادت کا احتساب بھی کیا جا سکتا ہے لیکن سی پی سی نے انتخابی جمہوریت کے بغیر تمام مقاصد زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کئے ہیں۔ جب میں نے چین میں کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیاتو میں نے دیکھا کہ ان کا ٹیلنٹ کو ڈھونڈنا اور پھر اس کی تربیت کرنے کا نظام کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے۔ جب وہ کوئی چیز تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ نظام اس کی حمایت کرتا ہے ۔

ہمارے معاشرے اور حتی کہ مغربی جمہوریت میں کسی نظام میں تبدیلی بہت مشکل ہے۔ آپ ہمیشہ وہ نہیں کر سکتے جو معاشرے کے لئے بہتر ہو۔ چین نے اس لئے اتنی تیزی سے ترقی کی ہے کہ وہ اپنے نظام میں تیزی سے تبدیلی لاتے ہیں۔ جب وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نظام کام نہیں کر رہا ہے تو وہ اسے تبدیل کر دیتے ہیں اور انہوں نے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ہے۔ انتخابی جمہوریت میں صرف پانچ سال کی منصوبہ کی جاتی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سی پیک کا اگلا منصوبہ پاکستان کے لئے بہت حوصلہ افزا ہے ۔ ہمارے پا س خصوصی اقتصادی زون ہوں گے۔ ہمیں امید ہے کہ چینی صنعت ان خصوصی زونز کی طرف متوجہ ہو گی۔ ہم انہیں مراعات دیں گے۔ پاکستان میں لیبر سستی ہے اور توقع ہے کہ چین کے صنعت کار اس طرف توجہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چین سے زراعت کے شعبہ میں تعاون کے خواہاں ہیں۔پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور ہم نے اپنی زرعی پیداوار بڑھانے پرتوجہ نہیں دی۔

ہمیں امید ہے کہ ہم چین کو جدید زرعی مہارت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کی چیانگ جس عمل کے ذریعے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے 30 سال کی جدوجہد کی۔ انہوں نے دیہات کی سطح پر جدوجہد شروع کی اور اپنی محنت سے لیڈر بنے ہیں۔ اس قسم کا عمل بہت ساری انتخابی جمہوریتوں میں بھی ناپید ہے۔

امریکی صدر کو اس قسم کی سخت محنت اور جدوجہد سے نہیں گزرنا پڑا ہے۔ چینی قیادت جب اعلیٰ ترین مقام پر پہنچتی ہے تو انہیں بھرپور تجربہ حاصل ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ نظام کو مکمل طورپر سمجھتے ہیں۔

انہیں پتہ ہوتا ہے کہ نچلی سطح پر لوگ کیسی زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غربت کے خاتمہ میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح چین نے کورونا وائرس کی وبا کامقابلہ کیا وہ منفرد تھا۔ چین سے جس طرح ہماری مدد کی، ویکسین عطیہ کی ، اس پر ہم چین کے شکر گزار ہیں۔ چین کے بعد پاکستان وہ ملک ہے جس نے بہتر انداز میں کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کیا۔ چین کی مدد سے ہم اپنے طبی عملے کو بروقت ویکسین لگانے میں کامیاب رہے۔

پاک چین دوستی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستا ن اور چین کے تعلقات بہت خصوصی ہیں۔ چین نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔ چین نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔ چین اور اس کے عوام کا پاکستانیوں کے دلوں میں ایک خاص مقام ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چین اور امریکا کے اختلافات سے پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی طاقتیں پاکستان جیسے ملکوں کو کسی ایک گروپ کا ساتھ دینے پر مجبور کریں، ہم کیوں کسی کی سائیڈ لیں۔ ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔

پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کبھی کم نہیں کر ےگا۔ جتنا بھی دبائو ہوہمارے تعلقات تبدیل نہیں ہوں گے۔ سی پیک سے ہمارا اقتصادی مستقبل وابستہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ چین ایک ابھرتی ہوئی سپورٹنگ پاور ہے۔ جب ادارے مضبوط ہوتے ہیں تو اس ملک کے کھیل کو بھی فروغ ملتا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کو ابھی وبا کا سامنا ہے اور ہم اس کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے۔

وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سنکیانگ کے حوالے سے مغربی میڈیا اور حکومتوں کے موقف اور چین کے موقف میں فرق ہے ، ہم چینی موقف کو تسلیم کرتے ہیں۔اس حوالے سے مغربی میڈیا کا کشمیر کو بہت کم کوریج دینا منافقانہ رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا پہلا مرحلہ توانائی اور رابطے تھا۔ ہم اب زرعی شعبے میں چین سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ۔ ہنرمندی کے حوالے سے تعاون کے خواہاں ہیں۔

ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ چین اور امریکا کی مخالفت بہت تشویش ناک ہے اس سے دنیا ایک مرتبہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ہم کیوں کسی کی سائیڈ لیں، چین کے ساتھ ہمارے 70 سال پرانے تعلقات ہیں۔

افغانستان کے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ بہت مشکل سوال ہے، اس وقت کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ امریکا کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نےعسکری قوت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ، افغانستان کی تاریخ ہے کہ کوئی افغانوں کو تابع نہیں کرسکا، جیسے ہی امریکا نے افغانستان سے نکلنے کا اعلان کیا، طالبان نے اسے اپنی فتح قرار دیا۔ ایسی صورتحال میں انہیں سیاسی حل پر لانا بہت مشکل ہے۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے ۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوگا۔ اس لئے ہم ہر صورت سیاسی حل چاہتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی چینی میڈیا سے گفتگو کے موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی ، ترقی و اصلاحات اسد عمر بھی موجود تھے