اسلام آباد۔8فروری (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے کوشاں ہیں، بدعنوانی ملک کیلئے سب سے بڑا کینسر ہے، قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ملک کے اربوں روپے چوری کرنے والے این آر او چاہتے ہیں، بیشتر غریب اور ترقی پذیر ممالک کی پسماندگی کی وجہ ان کی قیادت کا بدعنوان ہونا ہے، مغربی ممالک اسلامی فلاحی نظام کے اصول اپنا کر آگے نکل گئے ہیں، آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ مذہبی منافرت کو ہوا دی جائے، مغرب کو باور کرانا ہوگا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، علما کرام کو اتحاد و یگانگت اور ملک کو اپنے اصل راستے پر واپس لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں علما مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور سجادہ نشین عیدگاہ شریف پیر حسان حسیب الرحمن نے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قیام پاکستان میں علما مشائخ کا بہت اہم کردار رہا ہے، علما مشائخ نے بابائے قوم کے ساتھ مل کر قیام پاکستان کیلئے بھرپور کردار ادا کیا، قائداعظم پاکستان کو بطور اسلامی فلاحی ریاست رول ماڈل بنانا چاہتے تھے، آج بھی پاکستان کو رول ماڈل بنانے کیلئے علما کرام کا بہت اہم کردار ہے، دنیا کی تاریخ میں پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، علامہ اقبال بھی پاکستان کو ایک ایساملک دیکھنا چاہتے تھے جو ساری دنیا کیلئے رول ماڈل بنے، عظیم مسلمان سکالر محمد عبدہ بھی سوا سو سال پہلے مغرب سے مصر واپس آئے تو انہوں نے وہاں پر بتایا کہ مغرب میں مسلمان تو نہیں تھے لیکن اسلام بہت دیکھا جبکہ مصر میں مسلمان تو بہت ہیں لیکن اسلام نہیں ہے، ماضی میں مسلمانوں کے کردار کو دیکھ کر لوگ اسلام قبول کر لیتے تھے لیکن بدقسمتی ہم اس چیز سے بہت دور نکل گئے، پاکستان کو ہمیں ایک ایسا ملک بنانا تھا جس کو دیکھ کر دنیا متاثر ہوتی، علما مشائخ کو ملک کو اپنے اصل راستے پر واپس لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مغرب میں دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر اسلامی دہشت گردی اور اسلامی انتہا پسندی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ پچھلے 20 سال میں مسلمان ممالک کی طرف سے اس پر ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا، اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے پلیٹ فارم موجود ہیں جہاں پر مسلمان لیڈروں کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، دین اور دہشت گردی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، مغرب میں کبھی مسلمان لیڈروں کی طرف سے اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہر معاشرے میں انتہاپسند اور اعتدال پسند افراد ہوتے ہیں، انتہا پسندی کو اسلام سے جوڑنے کے حوالہ سے دنیا کو ہم سمجھا نہیں سکے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خودکش حملوں کو بھی اسلام سے جوڑ دیا گیا حالانکہ نائن الیون سے پہلے سب سے زیادہ خود کش حملے تاملوں نے کئے جو ہندو تھے لیکن کبھی کسی نے ان کے حوالہ سے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح استعمال نہیں کی، اس سے پہلے جاپانیوں نے بھی دوسری جنگ عظیم میں جب وہ شکست سے دوچار تھے ، جہازوں میں بیٹھ کر امریکی کشتیوں پر خود کش حملے کئے تو اس وقت بھی ان کے دین کا نام بھی نہیں لیا گیا، سلمان رشدی نے بھی جب فتنہ پھیلایا تو اسے مسلمانوں کی طرف سے ردعمل کا علم تھا اور اس نے اس ردعمل کو مغرب میں آزادی رائے کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن مغرب کو اصل صورتحال کا علم نہیں تھا کیونکہ مغرب کا دین کے حوالہ سے رویہ مسلمانوں سےمختلف ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسلمان لیڈروں کو مغرب کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ ہم حضور اکرمﷺ کی ذات مبارک سے کتنی محبت، عقیدت، پیار اور عشق رکھتے ہیں، آزادی اظہار کے نام پر توہین رسالت کرکے ہمارے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پھر یہ فتنہ کبھی دوسرے طریقوں سے سامنے آتا رہا ہے جس پر مسلمان ردعمل کا اظہار کرتے ہیں تو اسلامو فوبیا کی وجہ سے مغرب میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیوزی لینڈ میں ایک بندوق بردار نے 50 مسلمانوں کو مسجد میں شہید کر دیا، یہ انتہا پسندی ہے، اسلامو فوبیا کا معاملہ اقوام متحدہ اور دیگر فورمز پر بھرپور طریقہ سے اٹھایا ہے اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کو خطوط لکھے کہ جب تک ہم اسلامو فوبیا کا مقابلہ نہیں کریں گے تو ہمارے جذبات مجروح کرنے والی چیزیں بار بار سامنے آتی رہیں گی جبکہ یہودی چونکہ منظم ہیں اس لئے کوئی ان کے خلاف مغرب میں بات نہیں کر سکتا اور اسرائیل پر تنقید کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا، آزادی اظہار کی وجہ سے ہولو کاسٹ کے حوالہ سے کوئی منفی بات نہیں کی جا سکتی اور چار یورپی ممالک میں تو اس پر جیل کی سزا ہو جاتی ہے، وہاں پر انہیں آزادی اظہار نظر نہیں آتا لیکن مسلمانوں کی اپنی کمزوری ہے، میں مسلمان ممالک کے رہنمائوں کے سامنے بھی یہ معاملہ اٹھاتا رہتا ہوں اور مغرب کے سربراہوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ حضور اکرمﷺ کی شان میں گستاخی مسلمان برداشت نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی ریاست حضور اکرمﷺ نے قائم کی، میرا یہ ایمان ہے کہ جو قوم بھی اس ریاست کے اصولوں پر چلے گی وہ ترقی کرے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا، جو مدینہ کی ریاست کے اصول تھے وہ یورپ بالخصوص سکینڈنیویا میں اپنائے جا چکے ہیں اور غریب آدمی کی ریاست تمام ضروریات پوری کرتی ہے اور یہی چیز دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے مدینہ کی ریاست میں متعارف کرائی گئی تھی، وہاں پر اچھی تعلیم اور صحت کی سہولیات ریاست دیتی ہے اور وہاں پر اردو میڈیم، انگلش میڈیم اور دینی مدارس کی طرز پر تین تین نصاب نہیں ہوتے، وہاں پر ایک ہی نصاب ہوتا ہے اور غریب کا بیٹا بھی وزیراعظم بن سکتا ہے جبکہ بے روزگار وں کی روزگار کے حصول تک حکومت مالی معاونت کرتی ہے، یہ فلاحی ریاست ہوتی ہے جو مدینہ میں قائم کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں قانون کی بالادستی قائم کی گئی تھی، دنیا میں آج تک کسی ایسے معاشرے نے ترقی نہیں کی جہاں پر قانون کی بالادستی نہ ہو، دنیا میں جو بھی خوشحال ممالک ہیں وہاں جتنی زیادہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کا نظام ہو گا وہ اتنے ہی ترقی یافتہ ہوں گے، یہاں پر جن لوگوں کے خلاف اربوں روپے کے کیسز ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں این آر او دے دیں، چھوٹے کیسز میں تو لوگ جیلوں میں رہیں اور جن کے خلاف ثابت ہو گیا کہ انہوں نے اربوں روپے چوری کئے ہیں وہ این آر او مانگ رہے ہیں، چھوٹے لوگوں کی چوری سے تو ملک تباہ نہیں ہوتا، ملک کو نقصان تب ہوتا ہے جب اس کا وزیراعظم اور وزرا چوری شروع کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ تیسری دنیا کے غریب ممالک کو دیکھ لیں تو ان کے ملک کا سربراہ یا وزرا ملک کا پیسہ چوری کرکے باہر لے جاتے ہیں ، ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر غریب ملکوں سے چوری ہو کر امیر ممالک میں جاتا ہے جبکہ ہمارا پورا سالانہ بجٹ 60 ارب ڈالر ہے، بیشتر غریب اور ترقی پذیر ممالک کی پسماندگی کی وجہ ان کی قیادت کا بدعنوان ہونا ہے اسی کو ظلم کا نظام کہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مدینہ کی ریاست کے اصول کیا تھے، 15، 20 سال کے اندر اندر انہوں نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا، پوری دنیا اس پر حیران تھی کہ اتنا بڑا انقلاب کیسے آ گیا، اس سلسلہ میں علما مشائخ کو لوگوں میں آگاہی پیدا کرنی چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مولانا رومی نے کہا تھا کہ جب کسی قوم میں اچھے اور برے کی تمیز ختم ہو جائے تو وہ مر جاتی ہے لیکن پیسہ چوری ہوتا ہے پھر آ جاتا ہے لیکن اخلاقیات ختم نہیں ہونی چاہئیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک شخص کو سپریم کورٹ نے سزا دی ہے اور وہ جھوٹ بول کر ملک سے باہر بھاگ گیا اور اس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس کے اربوں روپے باہر ہیں، یہاں کے چوری کئے گئے اربوں روپے باہر پڑے ہیں، چند بڑے صحافی عدالت میں چلے گئے اسے تقریر کرنے کی اجازت دی جائے اس سے ہم کیا پیغام اپنے نوجوانوں کو دے رہے ہیں کہ کیا چوری کرنا بری چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اربوں روپے کی باہر جائیداد ہے لیکن اس کا جواب ہی نہیں دے سکتے، مغرب میں اگر کوئی ملک کا پیسہ اس طرح لوٹتا تو وہ تقریر تو کیا کسی محفل میں بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا، بدعنوانی ملک کیلئے سب سے بڑا کینسر ہے، پورا معاشرہ اس کا مقابلہ کرتا ہے اور جب کوئی تھانیدار یا پٹواری بھی رشوت لیتا ہے تو وہ اس بات سے خوفزدہ ہوتا ہے کہ کہیں لوگوں کو اس کا پتہ نہ چل جائے اور معاشرہ اس چیز کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ کوئی اس کا پیسہ چوری کر لے یا قانون توڑے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ سنگاپور میں بھی بہت کرپشن تھی لیکن اس نے اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر بدعنوانی پر قابو پایا،علما مشائخ کو اس حوالہ سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ علما مشائخ کو لوگوں کو صفائی کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنے میں تعاون کرنا چاہئے، اسلام میں سچائی کی اہمیت کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں روزانہ کے معمولات میں کسی صورت سچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے، اتحاد اور یگانگت کے فروغ کیلئے بھی علما و مشائخ اپنا کردار ادا کریں، معاشرے میں تقسیم ایک قوم بننے میں رکاوٹ ہوتی ہے، پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ نعمتوں سے نواز ہے، مدینہ کی ریاست کیلئے کوششیں ایک طرح کی جدوجہد کا آغاز ہے، سوئچ آن آف کرنے سے ریاست مضبوط نہیں ہوتی اس کیلئے کردار سازی کی ضرورت ہے، جب کوئی قوم سچائی پر عمل پیرا ہوتی ہے اور اپنی ذہن سازی کرتی ہے اور کسی جھوٹے خدا کے سامنے نہیں جھکتی اور پیسے کے لالچ میں نہیں آتی تو وہی قوم ترقی کرتی ہے اور اس جدوجہد میں سب کو شامل ہونا چاہئے ،اکیلے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔