اسلام آباد۔1ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ پاکستان کو سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ تقریباً 10 ارب ڈالر ہے ، متاثرین کے لئے انسانی بنیادوں پر فوری امداد کے علاوہ ہمیں تعمیر نو اور بحالی کے لیے بھی بین الاقوامی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے، دنیا نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم نہیں کیا تو پاکستان جیسے ممالک کو موسمیاتی آفات کا سامنا رہے گا۔
جمعرات کو وزارت موسمیاتی تبدیلی سے جاری ایک بیان کے مطابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلابی ایمرجنسی کو 9 ہفتے ہو رہے ہیں لیکن اس موسمیاتی بحران کی شدت اب بھی سامنے آ رہی ہے، پاکستان کے جنوبی حصوں میں میلوں تک گہرا پانی اب بھی کھڑا ہے جبکہ ایک نیا بحران ہیلتھ ایمرجنسی کی شکل میں منڈلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی، ستمبر میں مزید بارشوں کا امکان ہے جبکہ دریائے سندھ میں پہلے ہی اہم بیراجوں پر اونچے درجے کا سیلابِ ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کا 70 فیصد حصہ اب پانی کے نیچے ہے، جس کی وجہ سے ہمیں ایک بے مثال انسانی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے جو دنیا نے ابھی تک نہیں دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک 1200 سے زائد افراد جاں بحق اور 3000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ 5000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں اور 243 پل ٹوٹ گئے، 10 لاکھ سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا اور 33 ملین سے زیادہ متاثر ہوئے۔
سندھ کا 90 فیصد اور ملک کی کل فصلوں کا 45 فیصد حصہ زیر آب ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق تقریباً 10 بلین ڈالر کے نقصانات کا اندازہ ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی اقوام متحدہ کی ایک فلیش اپیل تیار کی ہے جبکہ ہمارے پڑوسیوں اور دنیا بھر کے ممالک سے انسانی بنیادوں پر امداد پہنچ رہی ہے، یہ عارضی پناہ گاہوں کی مشکل زندگی میں گھرے ہوئے لاکھوں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمیں تعمیر نو اور بحالی کے لیے بین الاقوامی برادری سے مزید امداد کی ضرورت ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ پیغام واضح ہے کہ طویل مدتی بنیادوں پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم نہیں کیا گیا تو گلوبل وارمنگ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعمیر نو کے عمل میں ہمیں یقینی طور پر موسمیاتی لچک کے لیے بہتر طریقے اپنانے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ جب تک دوسرے ممالک اپنے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم نہیں کرتے جیسا کہ ماحولیات سے متعلق گزشتہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں وعدہ کیا گیا تھا، موسمیاتی آفات پاکستان جیسے فرنٹ لائن ممالک کو بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ نشانہ بناتی رہیں گی، اسے بدلنے کا یہی وقت ہے ۔