پاکستان کے آئین میں 26 ویں آئینی ترمیم طویل مدتی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، آئینی و قانونی امور کے ماہرین کا آئی پی ایس کے زیراہتمام گول میز کانفرنس سے خطاب

199

اسلام آباد۔12دسمبر (اے پی پی):آئینی و قانونی امور کے ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں 26 ویں آئینی ترمیم طویل مدتی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے جہاں عدالتی آزادی اور پارلیمانی نگرانی کے درمیان ایک اہم توازن موجود ہے۔

ان خیالات کا اظہار مقررین نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد کے زیر اہتمام "پاکستان کے آئین کی 26 ویں ترمیم: اہمیت اور اثرات” کے عنوان سے منعقدہ ایک گول میز اجلاس میں کیا ۔ اجلاس کی صدارت سپریم کورٹ کے وکیل احمد بلال صوفی نے کی جبکہ خطاب کرنے والوں میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، وزارت قانون و انصاف سے جام محمد اسلم، سپریم کورٹ کے وکیل سید احمد حسن شاہ، شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے حافظ احمد وقاص اور آئی پی ایس کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر شہزاد اقبال شام شامل تھے۔ 26ویں ترمیم کا جائزہ پیش کرتے ہوئے جام اسلم نے اس بات پر زور دیا کہ 26ویں ترمیم کے تحت آئینی اسکیم میں تبدیلیوں کے لیے مناسب غور و خوض کیا گیا تھا۔ اہم نکات میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں خصوصی آئینی بنچز کا قیام اور چیف جسٹس کی تقرری کے عمل کی دوبارہ تشکیل شامل تھی۔

مزید برآں ترمیم نے ہائیکورٹ کے ججز کے لیے کارکردگی کے جائزے متعارف کرائے، ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری کے لیے عمر کی حد کو کم کیا اور وفاقی شریعت کورٹ کے ججز کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی اجازت دی۔ احمد حسن نے ترمیم کے ارد گرد جاری بحث پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ آئینی بنچوں کی تشکیل پاکستان کے عدالتی منظر نامے میں ایک ارتقائی عمل ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ مقدمات کو ان کی نوعیت کے مطابق تقسیم کیا جائے جیسے کہ فوجداری، کارپوریٹ یا آئینی مقدمات تاکہ عدالتی وضاحت اور یکسانیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ احمد وقاص نے وفاقی شریعت کورٹ سے متعلق فیصلوں میں ترمیم کی اہم پیش رفت کو اجاگر کیا اورخاص طور پرربا کے خاتمے اور قوانین کی اسلامائزیشن کے حوالے سے بات کی۔

انہوں نے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمانی فورمز کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے ترامیم کے نفاذ کے عمل کو تیز کرنے میں احتیاط برتنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس میں پارلیمانی بحث اور عوامی مشاورت کو ترجیح دینی چاہیے۔ انھوں نے ترمیم کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جامع جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مستقبل میں قانون سازی کی بہتری کی راہ ہموار کی جا سکے اور موثر اور متوازن اصلاحات کو یقینی بنایا جا سکے۔