پاکستان کے ابھرتے ہوئے نئے لکھاری پبلشرز کی تلاش کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ، عکسی مفتی

135
اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کی دنیا بھر میں 114 ملین افراد کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ہنگامی امداد کی اپیل

اسلام آباد۔15دسمبر (اے پی پی):پاکستان میں ادبی صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن نئے مصنفین کو اپنے کام کو پرنٹ کرنے کے لیے پبلشرز تلاش کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ معروف ادیب، مصنف اور لوک ورثہ کے بانی عکسی مفتی نے اتوار کو اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے ملک کی اشاعتی صنعت میں تعاون کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ قائم شدہ اشاعتی ادارے معروف مصنفین کی حمایت کرتے ہیں جب کہ چھوٹے پبلشرز اکثر مصنفین کی تحریروں کو شائع کر نے کے لیے ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مصنفین کو ان کے کام کے لیے رائلٹی ملتی ہے لیکن موجودہ منظر نامے میں بہت سے ابھرتے ہوئے مصنفین کو اپنی کتابیں چھاپنے کے لیے پبلشرز کو ادائیگی کرنے کا کہا جاتا ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کا کام وسیع قارئین تک پہنچے گا۔ انہوں نے بیرون ملک بالخصوص بھارت میں اردو ادب کی مانگ کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ اکیڈمی آف لیٹرز، نیشنل بک فاؤنڈیشن اور نیشنل لینگویج پروموشن ڈیپارٹمنٹ جیسے ادارے پڑھنے اور لکھنے کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے قائم کیے گئے تھے تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے اپنا بنیادی مقصد بھول چکے ہیں اور اب خود کتابیں شائع کر رہے ہیں جس سے اشاعتی صنعت کمزور ہو رہی ہے۔

عکسی مفتی نے زور دیا کہ حکومتی اداروں کو خود کتابیں شائع کرنے کے بجائے پبلشرز کی حمایت اور فروغ پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے پاکستان ایک فروغ پزیر ادبی ماحولیاتی نظام تشکیل دے سکتا ہے جو اس کے باصلاحیت ادیبوں کو پنپنے کی اجازت دے گا۔

انہوں نے کہا کہ آکسفورڈ لٹریری فیسٹیول اور اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول جیسے ادبی میلے درجنوں ادبی کاموں کی نمائش کرتے ہیں جہاں پر کتابوں کی خاطر خواہ فروخت ہوتی ہے۔