لاہور۔11ستمبر (اے پی پی):لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے پولیس سٹیشن ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران نشاندہی کی ہے کہ پنجاب پولیس نے کسی قانونی جوازکے بغیر تمام مینوئل ریکارڈ کو ختم کردیا،عدالت نے کہا کہ سارے نظام کوکمپیوٹرائزڈ کرنے سے سارے ریکارڈ کو دائو پر لگا دیا گیا۔ عدالت نے پولیس کے کمپیوٹرائزڈ نظام پر آنے والی لاگت اور اخراجات کی تفصیلات بھی طلب کرلیں اور کیس کی مزید سماعت19 ستمبر تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کی درخواست پر سماعت کی۔بینچ میں جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ بھی شامل ہیں۔
بدھ کو سماعت پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اسلام آباد میں مصروفیت کی وجہ سے عدالت میں پیش نہ ہو سکے،عدالت نے تمام فریقین کو تحریری جواب جمع کرانے کے لیے مزید مہلت دی، چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت مزید وقت نہیں دے گی اور یہ معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے،عدالت نے پی آئی ٹی بی کو پولیس سافٹ ویئر کا میکنزم پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے اور ہدایت کی کہ بتایا جائے کہ اس سسٹم پر کتنی لاگت آئی،عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر ریکارڈ میں رد و بدل ہوا ہے تو اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی،اس بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے،
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ قانون کے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا اور ریکارڈ کا محفوظ ہونا سب سے اہم ہے،عدالت نے مزید کہا کہ پنجاب پولیس نے کسی قانونی جواز کے بغیر تمام مینوئل ریکارڈ ختم کر دیا،جس کی وجہ سے بہت سارے ملزمان بری ہو چکے ہیں،عدالت نے پولیس کے کمپیوٹرائزڈ نظام پر آنے والی لاگت اور اخراجات کی تفصیلات طلب کیں اور کیس کی مزید سماعت 19 ستمبر تک ملتوی کر دی۔