پنجاب کے معاملے پر عدالتی فیصلے پر نظر ثانی یا سو موٹو ایکشن لیا جائے ،عمران خان اور ا س کے ساتھی چاہتے ہیں پاکستان آگے نہ بڑھے ،رانا ثنا اللہ،خواجہ سعد رفیق کی مشترکہ پریس کانفرنس

228

لاہور۔24دسمبر (اے پی پی):پاکستان مسلم لیگ (ن)اور اتحادیوں نے پنجاب کی صورتحال پر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار اور اسے چیلنج کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کے معاملے پر عدالتی فیصلے پر نظر ثانی یا سو موٹو ایکشن لیا جائے ، عمران خان نے جو تباہی کی وہ ختم نہیں ہوئی ، ہم اس کو ریورس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،پنجاب میں جو اقلیت میں چلے گئے ہیں انہیں کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ آئین پر عملدرآمد نہ کریں ، عمران خان اور ا س کے ساتھی چاہتے ہیں پاکستان آگے نہ بڑھے اوربار بار جمہوری نظام پر حملے کرتے ہیں،اعتماد کا ووٹ لیں اور پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں ، آج یہ اپنے لوگوں کو دو ، دو ارب روپے کی پیشکش کر رہے ہیں ، انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے،یہ جس اسمبلی کو تحلیل کریں گے وہاں پر انتخابات کر ادیں گے۔

ان خیالات کا اظہار وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ نے ہفتہ کے روز یہاں پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ، عطا اللہ تارڑ ،عظمی بخاری، رانا ارشد سمیت دیگر بھی موجود تھے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ موقف رہا کہ منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے ، ہم آئینی تبدیلی کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو نکال کر وفاقی حکومت میں آئے تھے اور اس کے لئے آئینی پراسیس کو فالو کیا گیا، اتحادیوں نے ایک ایسے موقع پر حکومت سنبھالی تھی جب ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا تھا،

عمران خان کی پونے چار سال کی حکومت کی پالیسیوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ اور فالٹ دونوں لائنزپرکھڑا کر دیا تھا،ان کے سارے گناہوں اور خرابیوں کا بوجھ ہم نے اٹھایا، ہم نے اپنی سیاست دائو پر لگائی لیکن ریاست کا دفاع کیا ،وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں ملک کو خطرناک صورتحال سے واپس لائے ، وہ دن گیا آج کا دن آیا عمران خان اورتحریک انصاف نے ہمیں کام نہیں کرنے دیا ، یہ کبھی راستے میں سرنگیں بچھاتے ہیں، کبھی گڑھے اورکہیں کھائیاں کھودتے ہیں اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں،

اس کی سب سے کلاسیکل مثال شوکت ترین کی صوبائی وزیر خزانہ کو ٹیلیفون کال ہے جو پوری قوم نے سنی ، وہ کہہ رہے ہیں آپ نے آئی ایم ایف کو لکھنا ہے کہ وفاقی حکومت جوبات کر رہی ہے ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے تاکہ آئی ایم ایف کا تالہ کھلے اور نہ ہی مالیاتی ادارے پاکستان کی مدد کریں اور پاکستان ڈیفالٹ کرجائے ۔ عمران خان نے شور مچایا ہوا تھاکہ اسمبلیاں ٹوٹنی چاہیں اورقبل از وقت انتخابات ہونے چاہیں،اسمبلیاں توڑنا بچوں کا کھیل نہیں ، یہ کھلونا نہیں ہے کہ جب دل چاہا بنا لیا اور جب دل چاہا توڑ دیا ، صورتحال یہ ہے کہ جب گورنر نے محسوس کیا کہ وزیر اعلی پنجاب کواعتماد کا ووٹ لینا چاہیے

انہوں نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کی اور انہیں اعتماد کے ووٹ کا کہا گیا لیکن انہوں نے اس سے گریز کیا، ان کو اس کے لئے باقاعدہ وقت دیا گیا ،پرویز الہی کے پاس اکثریت نہیں اور جس کے پاس اکثریت نہیں وہ قائد ایوان نہیں ہوسکتا اور یہ ہم نہیں آئین کہتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آئینی آرڈر کو نہیں مانا گیا جس پر گورنر نے اپنے قانونی و آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہیں ڈی نوٹیفائی کیا ،اسے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا اور جو فیصلہ آیا ہے اس میں خلا ہے اور ہم سمجھتے ہیں یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا ، ہم ادب سے گزارش کرتے ہیں کوئی فرد یا ادارہ آئین سے رو گردانی نہیں کر سکتا ، قائد ایوان وہی ہوگا جس کو ایوان کی اکثریت حاصل ہوگی،

اس فیصلے میں ان کو 18دن دئیے گئے ہیں،خدا نہ کرے لیکن ان دنوں میں ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ موجود ہے ،دوسری پارٹی کی طرف سے منڈی لگ سکتی ہے کیونکہ ان کے پاس اکثریت نہیں ،اگر اکثریت ہوتی تو وہ اعتماد کا ووٹ لے لیتے ، ہم نے اپنے موقف کا دفاع بھی کیاکہ ان کو کوئی ٹائم دیدیں اور یہ اعتماد کا ووٹ لیں جو انہیں لینا پڑے گا لیکن عدالت کے فیصلے میں گنجائش چھوڑ ی گئی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اعتماد کا ووٹ لیں ، ہمارے قانونی وآئینی ماہرین سمجھتے ہیں اس میں کوئی گنجائش نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری میٹنگ ہوئی ہے اور امکان ہے کہ ہم اس فیصلے کو چیلنج کریں گے،ہم چاہتے ہیں پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ نہ ہو اور اسمبلی اپنا کام کرے، یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ فی الوقت اسمبلی ٹوٹنے کا خطرہ ٹل گیا ہے اور عمران خان کی جو بڑھک تھی وہ ہوا میں تحلیل ہو گئی ہے ۔ اگر عمران خان اسمبلیاں توڑنے میں بہت سنجیدہ ہوتے تو الٹی میٹم دینے کی بجائے اسمبلیاں تڑوا دیتے، آپ خیبر پختوانخواہ کی اسمبلی توڑ سکتے ہیں لیکن آپ کا بھاڑہ خرچہ کون اٹھائے گا ، پنجاب میں نزلہ عوام پر گرایا جانا تھا جس کا ہم نے دفاع کیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں قانونی سقم ہے جس کو ریسپانڈ کیا جانا ضروری ہے ،

آج پنجاب میں منتخب حکومت نہیں بلکہ حکومت حکم امتناعی پر چل رہی ہے ، آج یہ ترقیاتی بجٹ کے کے نام پر اربوں روپے لٹا رہے ہیں ،انہیں اعتماد کا ووٹ لینا ہے وہ نہیں لیں گے تو بات بالکل واضح ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے ،یہ حکم امتناعی کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آئین پاکستان میں واضح بتا دیا گیا ہے جس کے پاس اکثریت ہوگی وہی حکومت کرے گا، مرکز میں صدر اور صوبوں میں اگر گورنر ز یہ محسوس کریں کہ کوئی قائد ایوان اکثریت کھو گیا ہے تو اسے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں ، پنجاب میں واضح طور پر آئین سے رو گردانی اورآئین شکنی کی گئی ہے ، پنجاب میں سپیکر نے بالکل اسی طرح کیا ہے

جس طرح ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے کیا تھا۔خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ بد قسمتی سے پاکستا ن میں نظریہ ضرورت کبھی بھی دفن نہیں ہوا ،جب تک اس کی تدفین نہیں ہوتی ،پسند اور نا پسند کا نظام ختم نہ ہو اس ملک میں انصاف نہیں مل سکتا،آج پھر جوڑ توڑ کی سیاست شروع ہو گئی ہے ،یہ ہم نے شروع نہیں کی بلکہ یہ عمران خان نے ایک فتنے کے طور پر کی ہے، آج ملک میں دہشتگردی سر اٹھا رہی ہے، اس کے خلاف جنگ لڑنی ہے ،اصل جنگ غربت کے ساتھ ہے ، یہ معاشی تباہی کر گئے اب اس کی بحالی کی جنگ ہے ، ہم ملک کے لئے کام کرنے لگتے ہیں لیکن یہ کام کرنے نہیں دیتے ، آپ کی دو صوبائی اوردو ریاستی حکومتیں موجود ہیں وہاں کیوں ڈلیور نہیں کرتے ،عمران خان اپوزیشن میں نہیں، ملک میں اس وقت کوئی اپوزیشن نہیں بلکہ سارے کسی نہ کسی طرح حکومتوں میں موجود ہیں ، سب اپنا اپنا کام کریں اورڈلیور کریں اور لوگوں کے دکھوں اوردرد کا مداوا کریں ۔

انہوں نے کہاکہ آپ بار بار حملہ کرو اور ہم برداشت کریں ،آپ ہمیں دیوار میں لگائیں اس کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے، ہم گونگے نہیں ہیں ہم بات کریں گے،ہم نے بولنے کی پہلے بھی قیمت ادا کی ہے ، جتنی قیمت ادا کی جا سکتی ہے کی ہے، تمام ریاستی اداروں کو آئین کے تابع رہنا چاہیے ، ادارے کام کررہے ہیں افراد مسائل کھڑے کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قانونی و آئینی ماہرین بیٹھے ہوئے ہیں،جائزہ لے رہے ہیں کہ عدالت عظمی میں جانے کا کون سا آپشن موجود ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پنجاب کے عوام پاکستان کے لوگ اور ریاستی ادارے ، سول سوسائٹی سن رہے ہیں دیکھ رہے ہیں میں یہ کہنا چاہتا ہوں یہ کھیل شروع کس نے کیا ہے ،ہم تو پنجاب اور خیبر پختوانخواہ اسمبلیوں کو کچھ بھی نہیں کہہ رہے تھے ،آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان میں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ،ہم تو وفاق میں رہ کر جو معاشی تباہی ہے اس میں لگے ہوئے ہیں کسی طرح واپسی ہو جائے ، سیلاب آیا مگر پنجاب اور خیبر پختوانخواکو وفاق سے تعاون کی اجازت نہیں ملی ، عمران خان کے پیٹ میں کیوں بار بار مروڑ اٹھتاہے ، کونسی چیز ہے جو انہیں سکون نہیں لیتی ، آپ کی حکومتیں ہیں خدمت کریں ۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے کہا کہ تین چیزوں کا عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ہم یہ کام کرنے جارہے ہیں، پنجاب اسمبلی ، خیبر پختوانخواہ اسمبلی کو توڑیں گے،ہم قومی اسمبلی میں پیش ہو کر اپنے استعفے ٹینڈر کریں گے جنہیں قبول کیا جائے ، پنجاب میں گورنر نے آپ سے کہا کہ آپ اسمبلی توڑنے سے پہلے اعتماد کاووٹ لیں ، یہ ان کی آئینی ذمہ داری اورفرض تھا ،ایک ایساوزیر اعلی جو ایک ہی سانس میں کہتا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے 99 فیصد اراکین اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں ،میں سمری پر دستخط کر کے دے آیا ہوں ، اسمبلیاں آئینی ادارے ہیں یہ جمہوریت کی اساس ہیں ، ایک آدمی کہتا ہے کہ ممبران کی 99فیصد تعداد اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں ہے لیکن اسمبلی کو کسی کی ضد ،انا اورگھٹیا سیاست کی نظر کیا جارہا ہے ،آئینی اتھارٹی گورنر ہے ان کا فرض بنتا ہے کہ اگر آپ نے آئینی ادارے کا مذاق اڑانا ہے تو آپ اعتماد کاووٹ لیں ،

آپ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا اورگریزاں ہوئے ، کس کو نہیں معلوم کہ سپیکر نے کیوں اجلاس نہیں بلایا،سپیکر کا کیا جھگڑ اچل رہا تھا ،اس لئے ان کے پاس اکثریت نہیں ہے ، گورنر کا جو آئینی حق تھا انہوں نے اسے ایکسر سائز کیا ۔ ہائیکورٹ نے فیصلہ کیا ہے لیکن کبھی ایسا فیصلہ نہیں ہوا کہ عبوری ریلیف میں متبادل ریلیف دیدیں ، ہم بھی قانون کے طالبعلم ہیں کبھی عدالتیں اس طرح نہیں کرتیں الٹی میٹ ریلیف مانگیں تو عبوری ریلیف دیدیا جائے۔

انہوں نے تو کہا تھاکہ ہمیں بحال کیا جائے ، عبوری ریلیف دیدیا گیا ،اس میں قانونی آئینی پیچیدگیاں ہیں جس سے ملک اور پنجاب بڑی بری طرح سے متاثر ہوگا،دو روز پہلے ایک ایسا آرڈر کیا گیا کہ پورے پنجاب میں خاص طور پر لاہور میں گرین اور برائون ایریاز کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا اور باپ ،بیٹے نے اربوں روپے کی دیہاڑی لگائی ،18دن ہیں اورایک ایک دن پنجاب کے خزانے پر بھاری گزرے گا ،ان دنوں میں اراکین کو موقع دیا جائے گا کہ جو ڈیڑھ ڈیڑھ ارب کے فنڈز دئیے ہیں ٹھیکیداروں سے کہیں گے جائو کمیشن لے کر اپنی جیبوں میں ڈالو ، اس سے ہارس ٹریڈنگ اور کرپشن کا بازار گرم ہوگا،اگر ہائیکورٹ نے عبوری ریلیف دینا تھا توآرٹیکل 133موجود ہے ان کو محدود کر کے اجازت دیتے ، اتحادی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ عدالت عظمی کو اس میں مداخلت کرنی چاہیے اورسو موٹو ایکشن لینا چاہئے ،پنجاب کو اس معاشی اور اس کرپشن کی تباہی سے بچائیں ۔

انہوں نے کہاکہ آپ کو روکا نہیں ہے ، اگر آپ اعتماد کاووٹ لینا چاہیے تو لے لیں صبح اعتماد کا ووٹ لے لیں معاملہ ختم ہو جائے لیکن ان کے پاس نمبرز پورے نہیں ہیں ،18دنوں بعد ہوں یا 28دنوں بعد یہ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے،چلیں پنجاب میں تو ایشو بن گیا ، کیا خیبرپختوانخواہ اسمبلی توڑی گئی ،قومی اسمبلی میں پیش ہونا تھا کیوں نہیں پیش ہوئے،ایک ٹولہ عمران خان کی شکل میں گمراہی کا شکار ہے ، یہ ملک دشمن ایجنڈے پر گامزن ہیں ،ملک میں فتنہ اور فساد چاہتے ہیں،سیاسی عدم استحکام چاہتے ہیں اس لئے چاہتے ہیں کہ ملک میں معاشی عد ماستحکام ہوا ورملک معاشی طور پر حادثے سے دوچار ہو اور اس طرح سے ملک کا نقصان ہو، اتحادی حکومت نے ملک کے بہترین مفاد میں مشکلات سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور یہ ہم نے اپنے سیاسی مفادات کے خلاف کیا ، اگر نگران حکومت کے سپرد کرکے چلے جاتے تو 45دن میں ملک ڈیفالٹ کر جاتا، ہم نے ملک کوسنبھالا ہے ڈیفالٹ سے بچایا ہے ،

آج ہم معاشی استحکام کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ،محمد شہباز شریف نے دن رات اپنے آپ کو اس کیلئے وقف کیا ہوا ہے ،یہ آئے دن کوئی نہ کوئی رخنہ ڈال رہے ہیں،سازش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ملک عدم استحکام کا شکار ہو ۔ انہوں نے کہاکہ ہماری عدالت عالیہ اور عدالت عظمی سے گزارش ہے کہ پنجاب کے معاملے پر عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کریں ، ان کی کرپشن اور لوٹ مار پر قدغن لگائیں نہیں تو یہ اٹھارہ دنوںمیں عوام کی جیبیں کاٹیں گے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کی صورت میں ٹولہ ملک دشمن کارروائیوں میں مصروف ہے ،عوام کو اس کا ادراک اور شناخت کرنی چاہیے ، یہ ملک کو کسی حادثے سے دوچار کر سکتا ہے ،

ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں ہم الیکشن سے کوئی فرار نہیں چاہتے ، اتحادیوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر ہونے چاہئیں اور اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے ،ہم نے پنجاب میں الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور حلقہ وائز امیدواروں کو حتمی شکل دے رہے ہیں ، علما ونگ کی میٹنگ اسی سلسلے کی کڑی ہے اور ہم پوری طرح سے تیار ہیں ،اگر انہوں نے اسمبلی سے مذاق کرنا ہے اسے توڑنا ہے تو اعتماد کا ووٹ لیں توڑیں ہم انکا بھرپور طریقے سے مقابلہ کریں گے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہم کسی طور پر بھی ہارس ٹریڈنگ میں شریک نہیں ہوں گے ، اعتماد کے ووٹ کیلئے اپنے بندوں کو انہوں نے لے کر جانا ہے ،

یہ اپنے بندوں کولالچ دے کر فنڈز دے کر پیسے دے کر اس بات پر راضی کر رہے ہیں کہ ان کا ساتھ دیں ، انہوں نے اپنے ہی بندوں میں سے ہی 186 ارکان پورے کرنے ہیں ، نہ ہم ان کا کوئی بندہ لے جا سکتے ہیں اور نہ یہ ہمارا لے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ خیبر پختوانخوا حکومت چھ ،سات ماہ سے غائب ہے ، یہ کبھی راولپنڈی میں انسانوں کا سمندر اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے کبھی لانگ مارچ کے لئے لوگوں کو اکٹھاکرتی ہے اور کبھی کسی ریلی میں ہوتی ہے ، آج کل زمان پارک میں بیٹھی ہوئی ہے، سی ٹی ڈی کا یہ حال ہے انہیں کئی ماہ کی تنخوا نہیں ملیں، پولیس وہاں پر دفاع نہیں کر پا رہی اور خطرناک صورتحال ہے جو پورے ملک کو متاثر کر رہی ہے ، انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں اور یہ سیاسی لڑائی میں پڑے ہوئے ہیں ، کبھی اسلام آباد میں حملہ کرنے کے لئے اسلحہ اکٹھا کر رہے ہیں،ملک کو نقصان پہنچانے کے لئے تھرڈ ڈگری ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں ۔

وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہاکہ ہم نے میٹنگ میں عدالتی فیصلے کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا ہے کہ کس طرح دیگر فورمز سے اپروچ کرنا ہے ،چوہدری شجاعت حسین نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسمبلیوں سے مذاق بند ہونا چاہیے ،عوام کے مینڈیٹ سے مذاق نہیں ہونا چاہیے ،پنجاب میں حکمران جو کر رہے ہیں اس میں ان کا کوئی کمال نہیں ہے ، ان کے پاس اکثریت نہیں ہے ،پی ٹی آئی کے اراکین غائب ہیں ،وہ لوگ سمجھتے ہیں اسمبلی توڑ کر اگر ایک سال پہلے گھروں میں چلے جائیں تو پتہ نہیں دوبارہ منتخب ہونا ہے یا نہیں،اتحادی اچھے فیصلے کریں گے تاکہ پنجاب کی نمائندگی بہتر انداز میں ہو ۔