چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت کانفرنس میں مختلف مذاہب کی نمایاں شخصیات کا مطالبہ

100
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز

اسلام آباد ۔ 25 مارچ (اے پی پی) مختلف مذاہب کی نمایاں شخصیات نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر بین المذاہب نفرت پیدا کرنے اور فروغ دینے کو جرم قرار دیا جائے اور اس کے خلاف اسی طرح سے قانون سازی اور اذہان سازی کی جائے جیسا کہ ہولوکاسٹ کے خلاف مغربی ممالک میں موجود ہے، پرامن بقائے باہمی اور دوسرے مذاہب کے احترام کو عالمی سطح پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاءپسندی اور مذہبی قائدین کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے مسلم کرسچین فیڈریشن انٹرنیشنل اور پیس اینڈ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام کانفرنس پیر کو یہاں مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت منعقد ہوئی۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن خلیل، چیئرمین مسلم کرسچین فیڈریشن انٹرنیشنل قاضی عبد القدیر خاموش اور مختلف مذاہب کی نمایاں شخصیات بھی موجود تھیں۔ چیئرمین مسلم کرسچین فیڈریشن قاضی عبد القدیر خاموش نے کانفرنس کا اعلامیہ پیش کیا۔ اعلامیہ کے مطابق اقوام متحدہ کی طرز پر انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر مذہبی قائدین پر مشتمل ایک انٹرنیشنل کونسل قائم کی جا رہی ہے جو مذہب کو دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے والے تمام عناصر اور گروپس سے لاتعلقی کا اعلان کرے گی،چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اس کے چیئرمین ہوں گے، مذہب کو دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے والوں کے بیانیہ کو مذہب کے خلاف اعلان جنگ اور ان کے اقدامات کو مذاہب کے خلاف بغاوت قرار دے گی، باہمی مکالمہ کے فروغ، انتہاءپسندی اور دہشت گردی کی مذمت کیلئے عالمی سطح پر بین المذاہب کانفرنسز منعقد کی جائیں گی۔ اعلامیہ کے مطابق عالمی اور ملکی سطح پر تمام مذاہب کے قائدین اساتذہ اور میڈیا کے لوگوں کی باہمی کانفرنسوں کا ایک مربوط نظام وضع کیا جائے گا تاکہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موقع پیدا ہو سکے۔ اعلامیہ کے مطابق عالمی سطح پر بین المذاہب نفرت پیدا کرنے اور فروغ دینے کو جرم قرار دیا جائے اور اس کے خلاف اسی طرح سے قانون سازی اور اذہان سازی کی جائے جیسا کہ ہولوکاسٹ کے خلاف مغربی ممالک میں موجود ہے، پرامن بقائے باہمی اور دوسرے مذاہب کے احترام کو عالمی سطح پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اعلامیہ کے مطابق آزادی اظہار اپنی جگہ اہم مگر اس کی آڑ میں انسانیت دشمنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی لہٰذا لازم ہے کہ عالمی سطح پر میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار کا پابند بنایا جائے اور کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت انگیز مواد کی تشہیر کو جرم اور دہشت گردی میں معاونت قرار دیا جائے، سوشل میڈیا جہاں روابط میں تیزی اور دنیا کو قریب لانے کا سبب ہے وہیں یہ نفرت پھیلانے والوں کا ایک اہم ہتھیار بھی بن چکا ہے لہٰذا سوشل میڈیا کے تمام میڈیمز کو ایک ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا جائے اور مذاہب کے حوالہ سے نفرت آمیز اور اشتعال انگیز مواد کو ختم کرتے ہوئے آئندہ کیلئے پابندی لگائی جائے۔ سانحہ کرائسٹ چرچ کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں پھیلنے سے نہ روکنے پر فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر اور مائیکرو سافٹ سربراہان کو 27 مارچ کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے طلب کر رکھا ہے، ہم اس کانفرنس میں اس عمل کی حمایت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند کیا جائے کہ وہ مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کے حوالہ سے متعلقہ ممالک کو معلومات شیئر کریں تاکہ ایسے لوگوں کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکے۔ آخر میں یہ کانفرنس نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، بلاشبہ انہوں نے ایک عالمی مدبر کا کردار ادا کیا اور کسی دباﺅ میں آئے بغیر دہشت گردی کو کوئی بھی نام دینے کی بجائے پوری قوت سے اسے مسترد کیا ہے۔ یہ کانفرنس برمنگھم میں مساجد کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ایسے تمام عناصر کو فی الفور قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اعلامیہ کے مطابق مذہب کوئی بھی ہو اسلام سے شروع ہو کر عیسائیت، یہودیت سے ہوتے ہوئے ہندو مت، بدھ مت، سکھ مت تک اور اپنے ماننے والوں کو تشدد پر مائل نہیں کرتا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مذہب کی بنیاد پر تشدد اور دہشت گردی دنیا کے امن اور انسانیت کی بقاءکیلئے سب سے بڑے خطرے بن چکے ہیں۔ سانحہ نیوزی لینڈ اس کا ایک محض اظہار ہے، خوش آئندہ بات یہ ہے کہ مسئلہ کی شدت کو پہلی بار محسوس کیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق دنیا کی مذہبی قیادت نے سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا اور مقابلے اور مناظرے کو چھوڑ کر مکالمہ کی راہ اختیار نہ کی تو بہت آگے تک جائے گی اور پھر ہم شاید ہم افسوس کرنے کی مہلت بھی نہ پا سکیں گے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کا واقعہ ہمیں اہم بین الاقوامی صورتحال کی طرف توجہ دلاتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی دنیا اس واقعہ سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کسی اسلامی یونیورسٹی نے ایسے مسئلہ پر کام کرنے کی کوشش نہ کی تاہم مسلم کرسچین فیڈریشن انٹرنیشنل اینڈ پیس ایجوکیشن فاﺅنڈیشن نے اس کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ مغرب میں مشرق کو سمجھنے کی عادت ہے، مغرب میں خیر کی قوتوں کو ہم کبھی اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی، جہاں مسلمان ملکوں نے اپنے مسلمان مہاجروں کیلئے دروازے بند کر دیئے وہاں مغرب نے ان کےلئے دروازے کھولے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں ایک ایسا طبقہ ہے جو گورے کے علاوہ کسی کو پسند نہیں کرتا جبکہ ایک طبقہ اسلام مخالف ہے، ہمیں اپنی اسلامی تاریخ کا ازسرنو مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، مغرب کے کچھ انتہاءپسند اگر تہذیبوں کے تصادم کی بات کرتے ہیں تو یہ مسلمانوں کے مفاد میں نہیں، ہمیں اچھے تعلقات کی طرف جانا ہے، تہذیبوں کی تصادم کی کوشش کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے ناکام بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل 4 اپریل کو ایک اجلاس منعقد کرے گی جس میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن خلیل نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام سلامتی، اخوت، محبت، ہمدردی کا نام ہے، تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی اسلام کی تعلیمات میں ہیں، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم خراج تحسین کی مستحق ہے کاش امریکہ بھی اس کی تقلید کرے، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نوبل انعام کی مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سامراج کا دوہرا معیار ہے، مذہب کو سیاست کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، ہمیں عالمی سطح پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا چاہئے، لڑانے والی طاقتیں باہر بیٹھی ہیں یہ ان کا ایجنڈا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام دوسرے مذاہب کی عبادے گاہوں کے علاوہ ان کے جان و مال کا درس بھی دیتا ہے۔کانفرنس سے ہندو لیڈر ہارون دیال، گلزار نعیمی، ممتاز دانشور مہر اﷲ ہزاروی، نعمان بشیر، محمد زاہد سعید ایڈووکیٹ، پروفیسر طاہر اسلام نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔