اسلام آباد ۔ 14 دسمبر (اے پی پی) چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہومیں ہونے والے شرمناک واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی آئی سی میں جو کچھ ہوا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے تھا،طب اور وکالت دونو ں ہی نہایت معزز پیشے ہیں،دونوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا،وہ ہفتہ کوسپریم کورٹ میں” تیزرفتار انصاف کی شروعات کے عنوان سے منعقدہ قومی کانفرنس کے سے خطاب کررہے تھے جس میں سپریم کورٹ کے ججز، ہائیکورٹس کے چیف جسٹس ، ملک بھر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور ماڈل عدالتوں کے ججوں نے شرکت کی ،کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ تبدیلی وہی لوگ لا سکتے ہیں جو ڈرتے نہیں ہیں ، ہم نے اسی نظام اورانہی وسائل کے اندر رہتے ہوئے انصاف کے عمل کو مختصر بنایاہے انہوں نے کہا کہ پی آئی سی واقعہ بہت افسوس ناک ہے,جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا,ہم متاثرہ خاندانوں کیساتھ ہمدردی کا اظہار کر تے ہوئے توقع رکھتے ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات پیش نہیں آئیں گے,انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے،اس لئے میں اس واقعہ پر زیادہ بات نہیں کروں گا تاہم یہہے یہ واقعہ ایک موقع فراہم کررہا ہے کہ بہتری لائی جائے، چیف جسٹس نے کہاکہ معاشرہ میں تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جورسک لیتے ہیں میں نے اٹھارہ نومبر کو بھی کہا تھا کہ بلوچ خون مجھے اندرسے مجبور کرتا ہے کچھ نہ کچھ کرنا ہے،اور وہ بھی بھلائی اور بہتری کیلئے کرناہے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کچھ عرصہ قبل ہم پر سب سے بڑی تہمت تھی کہ ٹرائل سسٹم ختم ہوچکاہے لیکن اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتی جب تک وہ قوم خود اپنی حالت نہ بدلے، ہماری تاریخ میں اب تک 15سے 20 کمیشن بنے تجاویز بھی آ ئیں جو کتابوں میں دفن ہو گئیں ہم نے ماڈل کورٹس کے حوالے سے دو بنیادی باتوں کو مدنظر رکھاکہ چالیس سے پچاس مقدمات ایک ساتھ چلتے تھے،جو درست نہیں تھا ہم نے وہ بہانہ ختم کردیا جس کے سبب مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر ہوتی تھی،اسی دوران یہ سوال بھی اٹھاکہ اگر مقدمات ختم ہو گئے تو پھر فیس کہاں سے آئے گی،لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کا انتظام کر رکھا ہے،کیونکہ اب ماڈل کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیسزملتوی نہ کرنے پر پہلے میں برا بنتا تھا،گزشتہ پانچ سال کے دوران سپریم کورٹ کی میری عدالت میں ایک مقدمہ بھی ملتوی نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ ہم نے پچیس سال پرانے فوجداری مقدمات ختم کئے ہیں اس کے علاوہ ہم نے تین ماہ پرانے فوجداری وقوعے کا بھی فیصلہ کیا،ماڈل کورٹس کے ذریعے ہمیں ایسے لوگ ملے ہیں جن کی لگن اورجذبے کی بدولت خودکار طریقے سے نظام چلتا رہے گا، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ منشیات اور قتل کے مقدمات کے اعدادوشمار کی میں خود تصدیق بھی کرتا ہوں۔ایک وقت تھا جب عدل جہانگیری ہوتی تھی جس میں جب کوئی مقدمہ آتا تھا فورا عدالت لگ جاتی تھی، اب ہم بھی عدل جہانگیری کی طرف جارہے ہیں، ماڈل کورٹس کے آ غاز میں تنقید بھی ہوتی تھی،کیونکہ لوگوں کو یقین نہیں آتا، یہاں تک کہا جاتا رہا کہ ججز چیمبر میں چائے پیتے ہونگے، لیکن ہم نے پاکستان بار کونسل کو کہاکہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، آپ اپنی ٹیمیں بنا کر خود دیکھیں، ہم نے انٹرنیٹ کے ذریعے ماڈل کورٹس کے ججز کو ٹرائل کرتے دیکھا،ماڈل کورٹس کے ججوں کو دیکھا ایسا لگاجیسے وہ ہائیکورٹ کے ججز ہوں،ان کاکنڈکٹ اور سنجیدگی قابل تعریف تھی صرف تین درخواستیں آئیں مقدمات تبدیل کرنے کیلئے،ایک خاتون جج کی وجہ سے مقدمہ منتقل کرنے کا کہا گیا،لیکن کوئی بات نہیں,یعنی اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے، یہاں ایک جنون ہے، اورجب جنون ہو تو پھر اللہ کی مدد آتی ہے چیف جسٹس نے بلوچستان میں ماڈل کورٹس کے حوالے سے کہا کہ وہاں پولیس کیساتھ لیویز نے بھی ہمارے ساتھ تعاون کیا، کیونکہ جہاں سڑک نہیں یا سفری سہولیات نہیں وہاں گواہ لانا بڑا مشکل ہے،لیکن وہاں بھی کامیابی ملی۔