اسلام آباد۔1فروری (اے پی پی):چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اپنے اعزاز میں منگل کے روز منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکہا ہے کہ میری تمام تر پیشہ وارانہ کامیابیوں کا سہرا میرے والد محمد نور ایڈووکیٹ کو جاتا ہے ،وکالت کا شروع کیا گیا 2002 سے شعبے کو آج خیر آباد کہہ رہا ہوں،سندھ ہائی کورٹ کا جج بھی بنا تو کام ایمانداری سے کیا،نومبر 2011 میں سپریم کورٹ کا جج بنا،دسمبر 2019 میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت ملی،بحیثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسز کے فیصلے کئے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داری بھئ نبھائی
،جیسے ہی چیف جسٹس کی ذمہ داری ملی کووڈ کا معاملہ شروع ہو گیا،مجھے کام کیساتھ ساتھ ججز اور اسٹاف کئ صحت کا بھی خیال رکھنا تھا ،کراچی لاہور پشاور اور کوئٹہ رجسٹری سے کیسز کی ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت شروع کرائی،میرے دور میں 38,680 کیسز التوا کا شکار تھے،مجھے خوشی ہے کہ میں نے بحیثیت چیف 4392 کیسز کا فیصلہ سنایا،مجموعی طور پر 27426 کیسز کے فیصلے ہوئے،
قانون کا پیشہ میرے لئےمحض روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ سب کچھ ہے، میں نے اپنی قابلیت اور کام کے ذریعے چیلنجر کا سامنا کیا ،کورونا وبا کے باوجود ا نصاف کی فراہمی کے عمل کو یقینی بنایا ،میری دعا ہے کہ ہر پاکستانی کورونا وبا سے محفوظ رہے،عدالتی انتظامی معاملات میں ساتھی جز کے تعاون پر مشکور ہوں ۔انہوں نے کہا کہ اختیارات میں تواز ن آئینی ڈھانچے کی بنیاد ہے، اختیارات میں توازن ریاستی اداروں کے دائرہ اختیار کو یقینی بناتا ہے،آئین کی طرف سے دئے گئے اہداف کے حصول کیلئے اداروں میں ہم آہنگی ضروری ہے،پہلی خاتون جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا فیصلہ تاریخی تھا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کرونا وبا کے دوران کراسسز مینجمنٹ کمیٹی بنائی،جیلوں اور قیدیوں کی حالت زار کی بہتری کیلئے اقدامات کیے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ذاتی حیثیت سے اسلام آباد ماڈل جیل کا دورہ کیا، حکام کو ہدایات دیں کہ جیل کو محفوظ بنایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ کری روڈ اسلام آباد سپریم کورٹ ایمپلائز کالونی کے قیام کیلئے 28 ایکڑ زمین حاصل کی اور سپریم کورٹ کی اضافی عمارت تعمیر کرنے کیلئے پانچ اشاریہ چار ایکڑ زمین بھی حاصل کی ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں مزید دس جج صاحبان کی تعیناتیوں کیلئے سفارشات بھیجیں ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے آخری خطاب میں ذاتی محافظ اور نائب قاصد کا خصوصی شکریہ ادا کیا ۔
انہوں نے خطاب میں اپنی اہلیہ، بچوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔قبل ازیں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئےچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوۓ کہا کہ قانون کی بالادستی کیلئے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہوگا
،چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا ء بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ ان باہمت ججز میں شامل ہیں،جسٹس مقبول باقر بھی ان دلیر ججز کا حصہ ہیں جو ابھی ریٹائر نہیں ہوئے،کرونا میں عدالت ایک دن بھی بند نہیں ہوئی پھر بھی مقدمات بڑھے،زیر التواء مقدمات کا بوجھ آنے والے چیف جسٹس کیلئے بڑا چیلنج ہوگا،سوموٹو کا اختیار پارلیمان نے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدلیہ کو دیا،عدلیہ کی آزادی اور ججز کے احتساب کو الگ نہیں کیا جا سکتا،عدلیہ کی آزادی کیلئے آزاد بار ایسوسی ایشن پہلی دفاعی لائن ہے،وکلاء کی سیاسی وابستگی ہو سکتی ہے
لیکن توپوں کا رخ اصل قلع کے تحفظ کیلئے ہونا چاہئے،عدلیہ آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی محافظ ہے،چیف جسٹس نے بلدیاتی اختیارات پر آج اہم فیصلہ صادر کیا،جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی بحث کی حوصلہ افزائی پر چیف جسٹس داد کے مستحق ہیں
،جسٹس عائشہ ملک قابلیت کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر ہوئیں،ججز تعیناتی میں شفافیت پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔وائس چیئرمین پاکستان بار حفیظ الرحمان چوہدری نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان بار مطمئن ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال جیسی شفیق شخصیت کے پاس اعلی ادارے کا اختیار منتقل ہو رہا ہے
،چیف جسٹس پاکستان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے اپنے خطاب میں کہا کہ وکلاء برادری کی بہبود سے متعلق معاملات میں چیف جسٹس گلزار احمد نے سرپرستی کی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے مقامی حکومتوں کی تحلیل کیخلاف تاریخ ساز فیصلہ دیا،وکلاء تنظیموں نے آئین اور قانون کی بالادستی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔