کشمیر پر رسل ٹربیونل کو بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں آبروریزی کا شکار کشمیری خواتین کے بیانات نے آبدیدہ کر دیا

92

اسلام آباد۔20دسمبر (اے پی پی):بوسنیا اور ہرزیگووینا کے دارالحکومت سراجیوو میں 17 سے 19 دسمبر تک ہونے والے کشمیر کے بارے میں رسل ٹربیونل کو کشمیری خواتین کے بیانات نے آبدیدہ کردیا جو بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں آبروریزی کا شکار ہورہی ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے، کینیڈا میں قائم این جی او کشمیر سیویٹاس کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگی جرائم کو اجاگر کرنے کے لیے سراجیوو میں منعقدہ رسل ٹریبونل میں بوسنیائی کمیونٹی کے علاوہ 70 سے زائد غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی۔

رسل ٹربیونل نے نسل کشی، ڈی کالونائزیشن، آبادکاری کے رجحان بشمول زمینوں پر قبضے، زبردستی حب الوطنی اور جوہری جنگ اور عالمی امن کے لیے خطرہ کے موضوعات پر توجہ مرکوز کی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے مختلف عینی شاہدین نے قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے واقعات بیان کئے۔

دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ اسٹڈیز میں میڈیا اینڈ کلچرل سٹڈیز پروگرام کے ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر محمد حماس المصری نے کہا ہے کہ کشمیر پر رسل ٹریبونل کے لئے سب سے مشکل مرحلہ کشمیری خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے واقعات سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قابض بھارتی افواج نے خواتین کی آبروریزی کو ہمیشہ ایک بنیادی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق بھارتی فوج نے اب تک آٹھ ہزار سے ساڑھے گیارہ ہزار کشمیری خواتین کو آبروریزی کا نشانہ بنایا ہے اور اس میں ملوث کسی فوجی کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے صدر ڈاکٹر مبین شاہ بھی ٹریبونل میں ایک گواہ کے طور پر پیش ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ کشمیر میں اس کا وحشیانہ قتل عام اور جبری قبضہ مسلم دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہے۔ انہوں نے ٹربیونل کو بتایا کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں 1990 سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کو شہید ، ڈیڑھ لاکھ شہریوں کو گرفتار، 8500 کا حراستی قتل اور 12 ہزار کو لاپتہ کردیا ہے جبکہ ایک لاکھ دس ہزار تعمیراتی ڈھانچوں کو تباہ کیا ہے، اس کے علاوہ 11170 خواتین کی آبروریزی کی گئی ہے۔

انہوں نے وسائل پر بھارتی قبضہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی مرکزی حکومت کی بجلی کی کمپنی این ایچ پی سی لمیٹڈ کے پاس 97 بلین ڈالر مالیت کے اثاثے ہیں اور اس کی سالانہ آمدنی710 ملین ڈالر ہے، کمپنی کی پیداواری صلاحیت کا ایک تہائی کشمیر میں ہے اور اسے مقامی ”ایسٹ انڈیا کمپنی” قرار دیا جاسکتا ہے۔

کشمیر سیویٹاس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرحان مجاہد چک نے ٹربیونل کے اختتام کے بعد جاری بیان میں کہا کہ کئی نامور عالمی شخصیات کارروائی کو سننے اور شہری جج کے طور پر کام کرنے کے لیے موجود تھے جن میں پروفیسر جان انتھونی کارٹی، پروفیسر سمیع العریان، حاتم بازیان، طارق چیرٹاؤل، یوون ریڈلی، ڈیوڈ ہرسٹ، پروفیسر ڈالیا موگاہد، پروفیسر جوناتھن براؤن، پروفیسر خالد بیدون اور شیخ ڈاکٹر عمر سلیمان اور دیگر شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ججوں کا یہ پینل کارروائی کو سننے کے بعد ایک رپورٹ کو حتمی شکل دے گا جسے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، یورپی یونین کی پارلیمنٹ اور دیگر عالمی اداروں اور حکومتوں کو تقسیم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پر رسل ٹربیونل کا مقصد مسئلہ کشمیر کے حل کی بنیاد کے طور پر بین الاقوامی قانون کی بالادستی کی تصدیق کرنا ، انسانیت کے خلاف جاری جرائم اور نسل کشی کے امکانات کو روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو اس کی ذمہ داری کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے۔