اسلام آباد۔22فروری (اے پی پی):گرین انرجی کے ماہرین نے کہا ہے کہ گرین ٹیکنالوجی کی طرف منتقلی سے اب تک 54 ملین اضافی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں، چین قابل تجدید توانائی اور ماحول دوست ترقی میں عالمی رہنما کے طور پر ابھرا ہے،قابل تجدید توانائی کا چینی ماڈل پاکستان میں قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔گرین انرجی پاکستان کی میکرو اکنامک پالیسیوں کا مستقبل ہے، چینی کمپنیوں کے ہائی ٹیک شعبوں میں بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے کی خواہش بہت زیادہ ہے ، پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے بدھ کو یہاں پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ اور پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے اشتراک سے سرسبز مستقبل کی طرف جانے کی ضرورت “ کے موضوع پرخصوصی کانفرنس میں کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ سرسبز مستقبل چین کے ترقیاتی ایجنڈے کا ایک اہم عنصر ہے، آج چین گرین ٹیکنالوجی میں پروڈیوسر اور سرمایہ کار کی حیثیت سے دنیا کی قیادت کر رہا ہے،
انہوں نے مزید کہا کہ گرین ٹیکنالوجی کی طرف منتقلی سے اب تک 54 ملین اضافی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں یہ رحجان سبز ترقی کے بڑھتے ہوئے کثیر الجہتی امکانات کو ظاہر کرتا ہے۔ سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری نے مقامی سطح پر توانائی کی بچت کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ا نہوں نے کہا کہ توانائی کی کھپت میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کرکے بچت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ ہمیں ماحولیاتی اور آب و ہوا کے مسائل سے نمٹنے میں چین کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے مختصر عرصے میں سموگ اور ذرات سے متعلق فضائی آلودگی کو 60 فیصد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے وسائل کے موثر انتظام اور ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کےلئے نیچے سے اوپر تک قائدانہ ماڈل پیش کیا ہے پاکستان کو اسکی پیروی کرنی چاہئے۔
این پی سی کی 12 ویں خارجہ امور کمیٹی کے وائس چیئرمین اور آر ڈی آئی کی ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ذہائو بیگی نے کہا کہ چین نے 2016 میں کاربن کے اخراج میں کمی کے حوالے سے اپنی پالیسی کا اعلان کیا تھا اور وہ پالیسی گائیڈ لائنز پر کاربند رہا ہے یہی وجہ ہے کہ چین قابل تجدید توانائی اور اخراج میں کمی میں عالمی رہنما کے طور پر ابھر رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دے کر ماحول دوست ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چینی کاروباری ادارے پاکستان میں ماحول دوست ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے کہا کہ پاکستان میں گرین فنانسنگ ابھی تک مین اسٹریم اکنامک پالیسی نہیں بن پائی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں اسے ایک اہم اقتصادی اور مالیاتی پالیسی کے طور پر اپنانا چاہئے ۔
انہوں نے گرین انرجی کوپاکستان کی میکرو اکنامک پالیسیوں کا مستقبل قرار دیا۔ ایس ڈی پی آئی کے سینئر ایڈوائزر ڈاکٹر حسن دائود نے کہا کہ پاکستان بی آر آئی کے توانائی منصوبوں کے تحت چین سے کیش فلو حاصل کرنے والا پہلا ملک ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ قابل تجدید توانائی ٹیکنالوجی پر خرچ ہونے والا ایک ایک پیسہ ملک کےلئے طویل مدتی توانائی اور معاشی تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔کرسٹوف نیڈوپل نے کہا کہ 2022 کے بعد سے چینی کمپنیوں کے ہائی ٹیک شعبوں میں بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے کی خواہش بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔
پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھا نا چاہئے۔ بینک آف پنجاب کے فرید احمد نے کہا کہ فنانسنگ پر 10 – 8 بینکوں کا غلبہ ہے اس میں توسیع کی جانی چاہئے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سٹیٹ بینک اور ایف بی آر کو غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کےلئے مالی اور ٹیکس مراعات متعارف کرانی چاہئیں۔ ساجد اسلم نے کہا کہ کلائمیٹ ایکشن میں سرکلرٹی مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور شمسی توانائی کی صلاحیت کو استعمال نہ کر کے ہم بنیادی طور پر فضول خرچی کر رہے ہیں۔ انہوں نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے ایک جامع ویلیو پر مبنی نظام تیار کرنے اور ان منصوبوں پر احتساب کو یقینی بنانے پر زور دیا۔
اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی (ایس ٹی زیڈ اے) کے ڈائریکٹر اسٹریٹجک پلاننگ اینڈ ریگولیٹری افیئرز حمزہ اورکزئی نے بتایا کہ پاکستان میں پہلی بار قانونی اور ریگولیٹری ماحول کو آسان بنانے کےلئے ایس ای زیڈز میں سرمایہ کاروں کے لئے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں جن سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ ریون انرجی کے سی ای او مجتبیٰ خان نے کہا کہ شمسی ٹیکنالوجی کی طلب میں سالانہ اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قابل تجدید شعبے کے لئے ہماری حکمت عملی موثر اور حقائق پر مبنی ہونی چاہئے۔پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفی حیدر سید نے اپنے اختتامی کلمات میں اسٹریٹجک مقامات پر اسپیشل اکنامک زون (ایس ای زیڈز) کے قیام پر زور دیا تاکہ حقیقی صلاحیتوں کو تلاش کیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کو منافع بخش بنایا جائے اور سرمایہ کاری پر منافع کی ضمانت دی جائے۔ انہوں نے قابل تجدید توانائی کی مارکیٹ کو وسعت دینے اور توانائی کی پیداوار کے لئے درآمدی بل کو کم کرنے کےلئے متوازن نقطہ نظر اپنانے پر زور دیا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=352607