ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں، افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں، پاکستان کی افغانستان پر پالیسی واضح ہے، ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں وزیر خارجہ کا قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں اظہار خیال

51
ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں، افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں، پاکستان کی افغانستان پر پالیسی واضح ہے، ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں وزیر خارجہ کا قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں اظہار خیال

اسلام آباد۔9جولائی (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں، افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں، پاکستان کی افغانستان پر پالیسی واضح ہے، ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں۔

وزیر خارجہ جمعہ کو چیئرپرسن سینیٹر شیریں رحمان کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے پہلے اجلاس کے دوران اظہار خیال کر رہے تھے۔ قبل ازیں چیئرمین سینٹ قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف اور دیگر اراکین کمیٹی کو خوش آمدید کہا۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سینٹ قایمہ کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ قبل وزارت خارجہ میں تمام پارلیمانی رہنماوں کو افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بریفنگ دی گئی،

اسی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اداروں کی جانب سے ممبران پارلیمان کو خطے کی صورتحال پر بریفنگ دی جائے۔پارلیمانی رہنماوں کی خواہش پر اداروں کی جانب سے پارلیمنٹ میں 8 گھنٹے کی مفصل بریفنگ دی گئی لیکن اس نشست میں صرف افغانستان پر گفتگو ہو سکی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ کوشش ہے کہ دوسری نشست عید الضحی سے قبل ہو سکے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ آج امریکہ کے سپوکس پرسن کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ہمارا تعمیری شراکت دار ہے ،ان کے مطابق افغانستان میں ان کی اور پاکستان کی منزل ایک ہے۔ تیسری بات وہ پاکستان محض افغانستان کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ 31 اگست تک افغانستان سے انخلاءمکمل ہو جائے گا لیکن پاکستان اور خطے کے ساتھ امن کیلئے ایک رشتہ استوار رہے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ آج پوری دنیا ہمارے موقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری سوچ تھی کہ انخلاءذمہ دارانہ ہو تاکہ کوئی منفی قوت خلا سے فائدہ نہ اٹھائے،ہم چاہتے تھے کہ انخلائ اور افغان امن عمل کو ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہئے، ان(امریکہ) کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے،ان مقاصد کو صدر بائیڈن نے بیان کیا ہے.

ان کے مطابق ان کا مقصد 9/11 کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانا تھا جو مکمل ہوا.ان کا مقصد افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو اتنا کمزور کرنا تھا کہ وہ آئندہ کسی اور کو نشانہ نہ بنا سکیں _وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ھدف انہوں نے حاصل کر لیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں نیشن بلڈنگ کیلئے نہیں گئے تھے۔ افغانستان کا مسئلہ افغانوں نے مل بیٹھ کر حل کرنا ہے اور ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ انخلاءکے بعد بھی وہ انسانی بنیادوں پر معاونت جاری رکھیں گے،وہ ڈپلومیٹک موجودگی رکھنا چاہتے ہیں ، وہ کابل ایرپورٹ کی سیکورٹی کیلئے معاونت فراہم کرنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔انہوں نے زلمے خلیل زاد کو ہدایت کی ہے کہ وہ جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کیلئے روابط جاری رکھیں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میری آج امریکی سیکرٹری خارجہ بلنکن سے بات متوقع ہے، میں ان کے سامنے پاکستان کا نکتہ نظر رکھوں گا۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اپنے سابقہ حلیفوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ آج دوحہ معاہدے اور بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ دوحہ معاہدے میں طالبان نے انخلاءکے دوران حملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا اور انہوں نے اس معاہدے کی پاسداری کی، جسے امریکہ تسلیم کرتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کے مطابق تین علاقے ایسے ہیں جہاں ٹیررازم پنپ سکتا ہے جس میں مڈل ایسٹ، افریقہ اور جنوبی ایشیا شامل ہیں، ان خطرات سے نمٹنے کیلئے وہ حکمت عملی تشکیل دے رہے ہیں،اس سارے تناظر میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ہم نے ستر ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے،ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت چکائی ہے۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر افغانستان کی صورتحال خراب ہوتی ہے اور حالات 90 کی دہائی کی طرف جاتے ہیں تو ہمارے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا، مزید مہاجرین کے آنے کا خطرہ بھی موجود ہے، ہم بارڈر فینسنگ بھی کر رہے ہیں اور بارڈر کو محفوظ بنا اور ایران ماڈل کو بھی زیر غور لا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی افغانستان پر پالیسی واضح ہے کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں استحکام چاہتے ہیں، ہم مختلف گروپوں کے قائدین سے ملے ہیں ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے، ہم افغانستان میں امن کیلئے ذریعے سنٹرل ایشیا تک اقتصادی روابط کا فروغ چاہتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اپوزیشن کی ہر قابلِ عمل تجویز کو صدق دل سے قبول کریں گے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ جلسوں میں آجکل بڑے بڑے قائدین منفی بیانات دے رہے ہیں ہم جواب دے سکتے ہیں لیکن ہم چاہیں گے کہ قومی سلامتی کے ایشوز پر باءپارٹیزن اپروچ رکھی جائے.

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں انخلاءکے بعد سول وار کی تشویش جائز ہے لیکن ہماری کوشش ہے اور خواہش ہے کہ افغانستان اس صورتحال سے دو چار نہ ہو۔پاور شئرنگ سول وار سے بچنے کا راستہ ہے۔افغان مہاجرین کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے بین الاقوامی کمیونٹی کو باور کروایا کہ آپ مہاجرین کو بھول چکے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کو افغان امن عمل کا حصہ بنایا جائے۔

۔انہوں نے چینی کردار کے حوالے سے کہا کہ چین اگر افغانستان میں استحکام کیلئے قدم بڑھاتا ہے تو اچھی بات ہے۔استنبول پراسس میں طالبان نے آنے سے انکار کیا لیکن ہم نے افغانستان اور ترکی کے ساتھ سہ فریقی اجلاس کیا ۔پاک ایران تعلقات کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات مزید مستحکم ہوئے، تہران کے ساتھ ہمارا باڈر مارکیٹس کا معاہدہ ہوا جبکہ نئے ایرانی صدر کے ساتھ وزیراعظم کی اچھی گفتگو رہی۔اس کے علاوہ افغانستان کے حوالے سے ایران کا کردار اہم ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔