اسلام آباد۔15ستمبر (اے پی پی):وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ یہ بھی فیک نیوز ہے کہ پی ایم ڈی اے پر کوئی آرڈیننس لارہے ہیں یا کوئی مسودہ تیار ہے، ہم پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی ، پی ایم ڈی اے پر مشاورت کررہے ہیں ،سب کمیٹی کی سربراہ مریم اورنگزیب کی جانب سے احتجاجی کیمپ میں جا کر پی ایم ڈی اے کو کالا قانون کہہ کر مسترد کیا گیا ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب کمیٹی کی سربراہ غیر جانبدار رہتیں اور اپنا موقف اس فورم پر پیش کرتیں،ہماری توقعات تھیں کہ مشاورتی عمل میں بامعنی بحث کے ذریعے آگے بڑھیں ، پی ایم ڈی اے کے تحت میڈیا سے متعلق ادارے ایک چھتری تلے آنے کرکے بعد کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔ وہ بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کی سب کمیٹی میں پی ایم ڈی اے فریم ورک پر بریفنگ دے رہے تھے۔
سب کمیٹی کے اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی مریم اورنگزیب نے کی جبکہ کمیٹی اراکین کنول شوزب اور نفیسہ شاہ بھی موجود تھیں۔ اجلاس میں پی بی اے، سی پی این ای، اے پی این ایس، پی ایف یو جے اور صحافتی تنظیموں کے عہدیداران شریک تھے اور اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔ وزیر مملکت فرخ حبیب نے بتایا کہ پی ایم ڈی اے فریم ورک پر پی بی اے، اے پی این ایس، سی پی این ای اور ملک کے 5 بڑے پریس کلبز ،پی ایف یو جے سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیمرا، اے بی سی، پریس رجسٹرار،پریس کونسل،موشن پیکچراور دیگر میڈیا سے متعلق ادارے ہیں، انکو پی ایم ڈی اے چھتری تلے یکجا کرنے جارہے ہیں، اس سے نہ صرف بجٹ کم ہوگا بلکہ پراسیس میں آسانی پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کمپلینٹ کمیشن میں الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا سے منسلک صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی درخواستوں پر 21 دنوں میں فیصلہ ہوگا، میڈیا کمپلینٹ کمیشن کا فیصلہ میڈیا ٹربیونل میں چیلنچ کیا جاسکتا ہے جہاں سے 21 دنوں میں فیصلہ ہوگا، اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکے گا، پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کسی صورت میڈیا کمپلنٹ کمیشن پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا کمپلنٹ کمیشن کی لاہور، ملتان، سکھر، کراچی،کوئٹہ،پشاور اور اسلام آباد میں موجودگی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ہمارا مقامی کانٹینٹ بلکل بھی نہیں ہے، ہم نے پی ایم ڈی اے کے لئے آف کام، سنگاپور اور ملائیشیا ماڈل سے راہنمائی لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافی اور میڈیا ورکرز کا مطالبہ ہے کہ تنخواہوں اور ویج بورڈ کا مسئلہ حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی فیک نیوز ہے کہ پی ایم ڈی اے پر کوئی آرڈیننس لارہے ہیں یا کوئی مسودہ تیار ہے۔
وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا کہ آج پیمرا، پریس کونسل سمیت موجودہ قوانین کو مضبوط بنانے کی بات کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کو ٹیکس نیٹ میں لارہے ہی ، او ٹی ٹی پ پلیٹ فارم کو لیگل کور دینا چاہتے ہیں،ڈیجیٹل میڈیا کی لائسنسنگ نہیں کررہے انھیں رجسٹرڈ ہونا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ فیک نیوز پر تعمیری بحث وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ممبر کمیٹی کنول شوزب نے کہا کہ سب کمیٹی کی چیئرمین مریم اورنگزیب نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ایم ڈی اے کو مشاورت سے پہلے ہی مسترد کیا، مریم اورنگزیب کی سب کمیٹی کی سربراہی پر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
ممبر کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا کہ کنول شوزب کا احتجاج بالکل ٹھیک ہے، اگر اس معاملے پر سب کمیٹی بنی ہے اس پر اس حوالے سے امور زیر بحث لانے جا نے چاہئیں تھے۔ پی ایف یو جے کے صدر پرویز شوکت نے کہا کہ پاکستان کے میڈیا میں نہ ملازمت دینے کا قانون ہے نہ نکالنے کا کوئی قانون ہے، صحافی اور میڈیا ورکرز 10،10 ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں، اچانک میڈیا اداروں سے نکال دیا جاتا ہے اور چوکیدار کو کہہ کر دفتر داخلے پر پابندی لگا دی جاتی ہے، بقایا جات نہیں دیئے جاتے۔پی ایف یو جے پروفیشنلز کے صدر مظہر اقبال نے کہا کہ ہم پی ایم ڈی اے کو مسترد نہیں کرتے، اس کی تجاویز پر بات کرنا چاہتے ہیں، آئی ٹی این ای میں 10،10 سال کیسز التواء میں رہتے ہیں، فیصلے نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لئے ایک نعمت ہے، پہلی مرتبہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کنٹریکٹ پر عمل نہ کرنے پر 21 دنوں میں فیصلہ مل سکے گا۔پی ایف یو جے کے صدر افتخار مشوانی نے کہا کہ ہم ہر اس قانون کا خیر مقدم کرینگے جو صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے مفاد میں ہوگا،پچھلے چند سالوں میں ہزاروں صحافی اور میڈیا ورکرز کونوکریوں سے فارغ کیا گیا۔
کنول شوزب نے کہا کہ سب کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں میں دیگر تنظیموں کو بھی سنیں گے۔چیئرمین کمیٹی مریم اورنگزیب نے کہا کہ جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز پروٹیکشن بل کو جلد قائمہ کمیٹی انسانی حقوق سے پاس کر کے ایوان میں لاکر اتفاق رائے سے منظور کرائیں گے، تمام سٹیک ہولڈرز 21 ستمبر تک اپنی تجاویز تحریری طور پر سیکرٹریٹ کو بھجوائیں ۔