ہندو قوم پرست کا بھارتی مسلمانوں کو سرکاری عہدوں پر کام کرنے اور ان کی آبادی کو روکنے کے لیے قوانین کا مطالبہ

246

اسلام آباد۔12جنوری (اے پی پی):بھارتی ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کے سابق معاون اور بین الاقوامی ہندو پریشد کے صدر پراوین توگڑیا نے بھارتی مسلمانوں کے خلاف زہرفشانی کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کو کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے سے روکنے اور ان کی آبادی کنٹرول کرنے کےلئے حال ہی میں بھارتی آئین میں ترامیم کا مطالبہ کیا ۔بھارتی ریاست آسام میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایسا قانون لائیں گے جس کے تحت کسی اور کمیونٹی سے کوئی ایس پی، پی ایم، ڈی ایم نہیں ہو سکتا ،میرے ملک میں سب کا ساتھ سب کی ترقی نہیں ہوگا۔ میرے لیےترقی صرف ہندوؤں کے لیے ہے۔

قبل ازیں آسام کے ضلع دھوبری میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دھوبری میں صرف 20 فیصد ہندو اور 1200,000 مسلمان بنگلہ دیش سے یہاں آئے ہیں ، انہوں نے 1951 کے بعد یہاں آنے والے مسلمان تارکین وطن کے ڈی این اے ٹیسٹ کا مطالبہ کیا ، انہوں بی جے پی حکومت سے ڈی این اے ٹیسٹ میں ناکام ہونے والوں کو حراستی کیمپوں میں بھیجنے کا بھی مطالبہ کیا۔توگڑیا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندو ہندوستانی سرزمین کے حقیقی وارث ہیں اور وہ رام مندر کی طرح یکساں سول کوڈ لانے، مسلم آبادی کو کنٹرول کرنے اور مسلمانوں کو کوئی آئینی عہدہ حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے ہندوستانی شہر کریم گنج کا نام بدل کر دیو بھومی رکھنے کا مطالبہ بھی کیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ کریم گنج ایک بنگلہ دیشی کے نام سے ماخوذ ہے۔ایک اور موقع پر توگڑیا نے مطالبہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے اقلیتی درجہ کو واپس لے لیا جائے اور ان کی آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے انہیں دو بچے والی پالیسی پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ایک عوامی اجتماع میں توگڑیا کو اپنے پیروکاروں سے ہتھیار اٹھانے اور بنگلہ دیشی نژاد 50 لاکھ مسلمانوں کو بنگلہ دیش واپس بھیجنے کا حلف لیتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔