یوکرین جنگ پر امریکہ اور بھارت کے مابین’’اسٹریٹیجک تعلقات‘‘ میں واضح دراڑیں نظر آنے لگیں

127
یوکرین جنگ پر امریکہ اور بھارت کے مابین’’اسٹریٹیجک تعلقات‘‘ میں واضح دراڑیں نظر آنے لگیں

اسلام آباد۔31مارچ (اے پی پی):بھارت نے یوکرین پر روس کی جارحیت کے معاملہ پر اپنا الگ راستہ اختیار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں روس کے اقدامات کی مذمت سے انکار کیا اور پابندیوں کے باوجود روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی جس سے امریکہ اور بھارت کے "اسٹریٹیجک تعلقات” میں واضح دراڑیں نظر آنے لگی ہیں ۔

یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے روس اور مغرب براہ راست تصادم کی حالت میں ہیں اور معاملات ایک خاص نقطہ سے آگے بڑھ چکے ہیں جہاں دوسری ریاستوں کو مغرب یا روس میں سے کسی ایک فریق کا انتخاب کرنا پڑ رہا ہے۔یوریشیا ریویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق بھارت جس کی امریکا کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری ہے، نے مغرب کا ساتھ نہیں دیا، اس کے باوجود کہ امریکا کی جانب سے بھارت کو دو چیزوں یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت اور روسی تیل کی خریداری سے روکنے پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایک تھنک ٹینک کے سینئر ریسرچ فیلو ظفر اقبال کے لکھے ہوئے مضمون میں کہا گیا ہے کہ کس طرح ایک طرف بھارت نے یوکرین پر غیر جانبدارانہ رویہ اپنایا ہے اور دوسری طرف اس نے روسی تیل کی خریداری جاری رکھی جس نے امریکہ کو مایوس کیا اور یہ تاثر اجاگر ہوا کہ بھارت ایک ناقابل اعتماد شراکت دار ہے۔جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکہ کی قیادت میں مغرب نے روس پر سخت پابندیاں عائد کر دیں تاہم ایک مشکل یہ تھی کہ زیادہ تر یورپی ممالک کا انحصار روس کے تیل اور گیس پر ہے۔

مارچ کے آغاز اور یوکرین پر روسی حملے کے دوسرے ہفتے تک امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیاکہ ہم روسی تیل ، گیس اور توانائی کی تمام درآمدات پر پابندی لگا رہے ہیں۔وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ روسی تیل اب امریکی بندرگاہوں پر قابل قبول نہیں رہے گا اور امریکی عوام پیوٹن کی جنگی سوچ کو ایک اور زبردست دھچکا دیں گے۔

امریکا نے یورپی یونین اور دیگر یورپی اتحادیوں کو روس کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے عائد پابندیوں کے علاوہ روسی تیل کی درآمدات کو بھی کم کرنے کے لیے قائل کیا۔ مئی کے اوائل میں یورپی یونین نے روسی تیل اور گیس پر پابندی کی تجویز پیش کی۔اس کے علاوہ روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکا نے مارچ کے اوائل میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی، اگرچہ قرارداد منظور کی گئی تھی لیکن کچھ ممالک ایسے تھے جنہوں نے ووٹنگ سے اجتناب کیا اور بھارت ان ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے ووٹنگ سے اجتناب کیا۔

بھارت امریکہ کا سٹریٹجک پارٹنر ہے اور امریکا نے بھارت سے افغانستان پر روسی حملے کی مذمت کرنے کو کہا جو بھارت نے نہیں کی۔اسی طرح امریکہ نے بھارت کو روس سے تیل کی درآمد پر بار بار خبردار کیا تاہم بھارت نے روس سے تیل کی اپنی درآمدات کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ بھارت روس سے یومیہ 600000 بیرل تیل درآمد کرتا ہے جس سے روسی خزانے میں کافی رقم کا اضافہ ہوتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے بین الاقوامی توانائی کے مشیر نے بھارت کو خبردار کیا کہ وہ روس سے رعایتی تیل کی درآمد میں اضافہ نہ کرے جو اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کر سکتا ہے۔

بھارت نے اب بھی روسی تیل کی درآمد جاری رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے مغرب میں مایوسی پائی جا رہی ہے۔ پابندیوں اور یورپ کو سپلائی میں کمی کے باوجود روس کی تیل اور گیس کی برآمدات مستحکم ہیں۔ سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (سی آر ای اے) نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ روس نے 100 دنوں میں تیل اور گیس کی برآمدات سے 100 بلین ڈالر کمائے ہیں جس سے مغرب کو حیرت ہوئی ہے کیونکہ پابندیوں کے باوجود روس تیل اور گیس برآمد کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

روس نے جب اپنا تیل رعایتی قیمت پر پیش کیا تو بھارت نے امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہونے کے باوجود اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔ مارچ میں بھارت کو روسی تیل کی درآمد تین ملین بیرل تھی جو اپریل میں بڑھ کر 7.2 ملین بیرل ہو گئی تاہم مئی میں یہ 24 ملین بیرل تک پہنچ گئی، جو مغرب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ بھارت روسی خزانے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے جو یوکرین جنگ میں استعمال ہوتا ہے۔

آنے والے مہینوں میں ایسا لگتا ہے کہ بھارت روس سے تیل کی درآمد میں مزید اضافہ کرے گا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ بھارت نے اپنے اسٹریٹجک پارٹنر امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے امریکی مفادات کی پرواہ نہیں کی اور یوکرین جنگ کے حوالے سے بھارت کے نقطہ نظر سے یہ تاثر اجاگر ہوتا ہے کہ بھارت امریکہ کا ناقابل بھروسہ شراکت دار ہے۔