اسلام آباد ہائیکورٹ ، سابق وزیر اعظم عمران خان کی اخراج مقدمہ کی درخواست میں تفتیشی افسر سے رپورٹ طلب

136

اسلام آباد۔6ستمبر (اے پی پی):اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت امتیازپر مشتمل ڈویژن بنچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اخراج مقدمہ کی درخواست میں تفتیشی افسر سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے قرار دیا کہ عمران خان کا بیان لیں، مقدمہ بنتا ہے یا نہیں، تفتیشی افسر فیصلہ کرے۔منگل کو سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر، فیصل چوہدری ایڈووکیٹ،ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔

عدالت نےعمران خان کے وکیل سے استفسار کیاکہ کیا آپ نے متفرق درخواست دائر کی ہے ؟،جس پر وکیل نے بتایا کہ پولیس نے عمران خان کے خلاف دہشتگردی مقدمے میں نئی دفعات شامل کرلیں،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا پولیس نے عمران خان کے خلاف چالان جمع کرایا ؟،ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایاکہ عمران خان مقدمہ میں شامل تفتیش ہی نہیں ہورہے،عدالت نے استفسار کیاکہ کیا تفتیشی افسر گئے ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان تک پولیس کو رسائی نہیں دی جارہی، تفتیشی افسر نے نوٹس بھی دیا لیکن عمران خان نے تفتیش جوائن نہیں کی، چیف جسٹس نے عمران خان کو شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کی جس پر عمران کے وکیل نے کہاکہ بالکل ہمیں شامل تفتیش ہونا ہے ، ابھی ابتدائی مرحلہ ہے،

چیف جسٹس نے کہاکہ یونیفارم میں کھڑا پولیس اہلکار ریاست ہے،اگر پولیس سے غلطی بھی ہوئی تو اس پر عدالت فیصلہ کرے گی،اگر ہم قانون پر عمل نہیں کریں گے تو باہر کیسے کسی کو قانون پر عمل درآمد کا پابند کیا جائے گا،یہ دو جینٹل مین نہیں ہیں بلکہ ان کی یونیفارم ہے جس کو ہم نے عزت دینی ہے،یہ ریاست کا نمونہ ہیں،اگر اس کورٹ نے ان کو کسی قسم سے صحیح برتاؤ نہیں کیا تو ان کی کوئی عزت نہیں کرے گا، وکیل نے کہاکہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات سے متعلقہ ٹرائل کورٹ نے بھی ان کو کہا،میں دہشت گردی کے لیبل کے ساتھ آپ کے سامنے کھڑا ہوں، انہوں نے اس کیس میں نئی دفعات بھی شامل کردیں ہیں،

چیف جسٹس نے کہاکہ جس طرح وہ کہہ رہے ہیں کریمنل کیس رجسٹر ہو چکا ہے،انہوں نے تین مزید دفعات لگائی ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیشی افسر کے لیے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے،قانون اپنا راستہ خود بنائے گا،سسٹم پر ہر کسی کو اعتماد ہونا چاہیے، اگر غلط offence بنا ہے تو تفتیشی افسر اپنی تفتیش میں خود اسے ختم کر دے، پولیس تفتیش کرکے یہ بھی فیصلہ کرے کہ کیا یہ دہشتگردی کا مقدمہ بنتا ہے؟یہ ہمارے نظام کے بھی امتحان کا وقت ہے،کوئی قانون سے بالاتر نہیں،اگر کوئی تفتیشی افسر کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو عدالت کو آگاہ کردیں،اگر قانون پر عمل نہیں کیا جاتا تو عدالت پھر درخواست بھی نہیں سنے گی،عمران خان کے خلاف کریمنل مقدمہ درج ہوگیا،آپ کہتے ہیں عمران خان کے خلاف مقدمہ خارج کردیں،پولیس ملزم کے شامل تفتیش ہوئے بغیر تحقیقات کیسے مکمل کرے گی؟،

ہمیں اس نظام پر اعتماد کرنا پڑے گا،رول آف لاء تب ہی قائم ہوگا جب آپ سسٹم پر اعتماد کریں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کوئی وہاں جانے کی اجازت نہیں دیتا تو پھر قانون کو اپنا رستہ خود بنانا ہے،اگر تفتیشی افسر کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتا تو آئندہ ہفتے رپورٹ دیں، اگر انہوں نے تعاون نا کیا تو کورٹ اس کیس کو نہیں سنے گی۔عدالت نے پولیس کو چالان جمع کرانے سے روکتے ہوئے کہاکہ 173 کی رپورٹ آپ جمع نہیں کرائیں گے پہلے ایک رپورٹ اس عدالت میں جمع کرائیں،تفتیش افسر پہلے اپنے اختیارات کا مناسب انداز میں استعمال کرے اور پھر رپورٹ دے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ اس کیس میں جے آئی ٹی بنی ہوئی ہےجس پر عدالت نے کہاکہ اس میں جے آئی ٹی کی کیا ضرورت ہے کہیں پر حملہ تو نہیں ہوا،صرف تقریر ہی ہوئی ہے،عدالت نے مزید سماعت15 ستمبر تک کیلئے ملتوی کردی۔