انتہاپسندانہ رویوں کے حامل ممالک کووافر مقدار میں جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی فراہمی سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں، مستقل نائب مندوب عامر خان

185

اقوام متحدہ۔11اپریل (اے پی پی):کچھ ممالک خاص طور سے انتہاپسندانہ نظریات اپنائے ہوئے ممالک کووافر مقدار میں جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی فراہمی سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں۔ اقوا م متحدہ میں پاکستان کے مستقل نائب مندوب عامر خان نےسلامتی کونسل میں ہتھیاروں اور آلات کی بغیر کنٹرول کے برآمدات پر بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے کیسز میں کچھ ریاستوں کی حد سے زیادہ قومیت پرستی اور بالادستی پر مبنی پالیسیوں ، خاص طور سے ان ریاستوں کی جو انتہاپسندانہ نظریات کو اپنائے ہوئے ہیں ، سے امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ ریاستیں روایتی اور جوہری ہتھیاروں ، بشمول ان کے حصول کے حوالہ سے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کوششوں کا مقصد ہمسایہ ممالک کو دھمکانا، علاقائی بالادستی اور بڑی طاقتوں کی خواہشات کو فروغ دینا ہے۔یہ ریاستیں اپنے ہاں موجود اقلیتوں پر جبر اور خودمختاری کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے راستے پر بھی چل رہی ہیں۔ عالمی برادری کی طرف سے احتساب نہ ہونےکے نتیجہ میں ان ریاستوں کی جرات بڑھ گئی ہے اور متعدد ذرائع سے جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی فیاضانہ فراہمی نے ان ریاستوں کی جارحیت کے راستے پر آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزای کی ہے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ حقیقی جنگ کی بجائے جنگ کی وجوہات پر توجہ دینا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ان ہتھیاروں کی روز افزوں اور ناقابل قبول انسانی قیمت ، خاص طور سے غیر ملکی قبضے اور حق خودارادیت کے دبانے کی صورتحال میں ان کی جو انسانی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے ،کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایک جامع اپروچ کی ضرورت ہے۔ تمام ریاستوں سے یونائیٹڈ نیشنز پروگرام آف ایکشن جیسے میکانزمز پر مکمل عملدرآمد پر زور دیتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ اس حوالے سے خاص طور سے ترقی پذیر ممالک کے لئے زیادہ مستحکم بین الاقوامی معاونت ، تعاون اور وسائل کی ضرورت ہے۔ ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندیوں پر عملدرآمد کے دوران آرمز کنٹرولز کو بہتر بنانا اور ہتھیاروں کی ٹریسنگ میں تعاون بڑھانے سمیت تما م متعلقہ اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ ایسی تمام کوششوں کا مقصد ہتھیاروں کی فراہمی کو ریگولیٹ کرنا ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس مطالبے کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی برادری کو سیاسی عزم کو متحرک کرنے کی، میکانزم تشکیل دینے اور طویل عرصہ سے حل طلب تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے جو تنازعات اور دہشت گردی اور منظم جرائم کے پس منظر میں کارفرما عوامل کو تقویت دینے کی بنیادی وجوہات ہیں۔پاکستانی مندوب نے اس صورتحال کے پس منظر میں ہتھیاروں کی بے حد پیداوار، تجارت ، استعمال اور اس کے معاشرتی اثرات کے درمیان روابط بارے نئے عالمی مباحثہ شروع کرنے کی تجویز دی۔

سلامتی کونسل میں مباحثے کے آغاز پر انڈر سیکرٹری جنرل اور ہائی ریپریزینٹیٹو فار ڈس آرمامنٹ افیئرز ایزومی ناکامتسو نے ہتھیاروں کی بغیر ریگولیشن کے اور غیر قانونی منتقلی سے لاحق خطرات سے آگاہ کیا اور کہا کہ آرمز کنڑول کے تمام بین الاقوامی، علاقائی اور عالمی معاہدوں اور فریم ورکس کو ہتھیاروں کی منتقلی میں شفافیت کو فروغ دینے اور ان کی تجارت کو ریگولیٹ کرنے کے لئے موثر انداز میں بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ انہوں نے ہتھیاروں کی تجارت کرنے والے ممالک سے ہتھیاروں کی خرید و فروخت سے متعلق اعداد و شمار کے تبادلے میں تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا۔