خيبر پختونخوا میں گڑ کی پيداوار ، کاروبار اور سوغات

1019
خيبر پختونخوا میں گڑ کی پيداوار ، کاروبار اور سوغات
خيبر پختونخوا میں گڑ کی پيداوار ، کاروبار اور سوغات

 رپورٹ: ڈاکٹر۔ ضیاء الرحمن

ترجمہ:جنت گل

زراعت اور کاشتکاری کاہزاروں سال قدیم پیشہ بنی نوعِ انساں کے لئے روزمرہ گزر بسر اور خوراک کی اشد ضروریات پورا کرنے کا بنیادی ذریعہ رہا ہے۔ پودے و فصلیں اگانے ، مویشی پالنے اور کھیتی باڑی کرنے پر محیط زراعت اور اس سے متعلقہ پیشے و شعبہ جات محض روزگار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک منظم طرزِ زندگی کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ مورخین اور مفسرین کا کہناہے کہ زیادہ تر پیغمبروں کا پیشہ بھی زراعت اور تجارت رہا ہے ۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پرانے زمانے میں بالخصوص مسلم معاشروں کے زیادتر لوگ کھیتی باڑی اور تجارت کو ترجیح دیتے تهے اور یہی صورتحال پشتونوں کی بھی تھی۔

پشتون 21وی صدی میں سب سے زیادہ کهیتی باڑی اور زمینداری کو پسند کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ یہ ان کی پہاڑی اور صحرائی زندگی یا فطرت سے قربت کا سبب ہے یا صدیوں سے چلا آرہا معاش کا ذریعہ۔ کهيتی باڑی کی ان فصلوں میں گندم٬ چاول ٬ مکئی٬ جو٬ لوبیا یا دیگر فصلوں کے بعد جو فصل لوگوں کی زندگی کی سب سے زیادہ ضرورت سمجھی جاتی ہے وہ گنے کی فصل اور اس سے بنائے جانے والی اشیاء ہیں جس میں گڑ سب سے اہم ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پشتون اپنی خوراک میں گوشت کے ساتھ سب سے زیادہ چائے پینے کے شوقین ہیں۔گڑ اچهی چائے بنانے اور شربت کے لئے لازمی سمجها جاتا ہے کیونکہ گنے سے چینی بھی بنتی ہے لیکن لوگ چینی کی جگہ گڑ کی چائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گڑ سے بہت ساری چیزیں بنتی ہیں جیسے کہ ٬مٹهائی٬ بیکری کی اشیاء٬ مختلف حلوہ جات٬ ميهٹے پکوان٬ شربت٬ مربہ جات٬ مصالحہ دار گڑ وغیرہ۔ گڑ کسانوں اور زمینداروں کے لئے آمدن کا ذریعہ بھی ہے اور دیہات میں معیشت کے ساتھ ساتھ کم وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ چلنے والی گڑ کی گھانیاں کارخانوں کا متبادل بھی ہیں۔

اس وقت خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ گنا مردان٬ چارسدہ٬ پشاور٬ صوابی٬ بنوں اور ملاکنڈ ڈویژن میں کاشت کیا جاتا ہے اور کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ دوسرے اضلاع کے مقابلے میں انہی اضلاع میں گڑ کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور وہ اس لئے کہ ان اضلاع میں نہ صرف پانی زيادہ ہے بلکہ آبپاشی کا بهی بہت بہتر نظام موجود ہے۔

گنے کی فصل کے بارے میں مردان شوگر کین ریسرچ سنٹر کے مطابق صوبے میں گنے کے پرانی اقسام میں این سی او 310 سن 1960 میں متعارف کرائی گئی، اسی طرح سی پی 48 /103 سن 1960، سی پی 101/44سن 1975 میں، سی پی 21/51 سن 1981، سی پی 357/65 سن 1983، ایل 96/62 سن 1983، سی او 1321 سن 1989 جبکہ مردان 92 سن 1992، بنوں  سن 1992، مردان 93 سن 1993 میں متعارف کی گئی۔

نئی اقسام میں مردان 93، سی پی77/400، ایس پی ایس بی 394، مردان 2005، سی پی 80/1827، سی پی 85/1491 اور اسی طرح سی پی 91/582 شامل ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی مل پریمیئر شوگر ملز مردان میں 1950 میں قائم ہوئی تھی۔خیبر پختونخوا میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اندازاً 104000 ہیکٹر رقبے پر گنے کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ اگر عالمی سطح پر اس کا جائزہ لیا جائے تو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق برازیل میں 98.4 ملین ہیکٹرز، بھارت میں 50.6، چین میں 18.3، تھائی لینڈ میں 13.2، پاکستان میں 11.3، میکسیکو میں 7.8، فلپائن میں 4.4، امریکا میں 3.7 اور آسٹریلیا میں 3.3 میلین ہیکٹرز رقبے پر گنے کی کاشت ہوتی ہے۔

اسی طرح پیداوار کے لحاظ سے برازیل میں 739.3 ملین ٹن، بھارت میں 341.2، چین میں 126.1، تھائی لینڈ میں 1001.1، پاکستان میں63.7، میکسیکو میں 61.2، فلپائن میں 31.9، امریکا میں 27.9 اور آسٹریلیا میں23.7 ملین ٹن گنا پیدا ہوتا ہے۔ اگر فی ہیکٹر پیداوار کی بات کی جائے تو آسٹریلیا میں فی ہیکٹر پیداوار 82.4، میکسیکو 78.2، تھائی لینڈ میں 75.7، امریکا 75.7، برازیل 75.2، فلپائن 73.2، چین 69.0، بھارت میں 67.4، ارجنٹائن میں 64.1 اور پاکستان میں 56.5 ٹن ہے۔ گڑ کی برآمد کے حوالے سے دنیا میں سرفہرست ممالک میں چین، تھائی لینڈ، ویتنام، بھارت، کوریا، برازیل اور انڈونیشیا شامل ہیں

۔یہاں ترقی یافتہ یا جدید آلات اور تربیت یافتہ ممالک کے درمیان پیداوار کا فرق واضح نظر آتا ہے۔ ہماری یہ پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے لیکن اس سلسلے میں حکومت کو ہنگامی اور موثر اقدامات اٹهانا ہوں گے جس سے کسانوں اور زمینداروں کے مسائل حل ہوں اور ان کو تمام ضروری جدید آلات او تربیت فراہم کی جائے۔

اس حوالے سے مالاکنڈ کے ایک زمیندار جاوید اقبال خان کا کہنا ہے کہ گنا سال بھر کی فصل ہے۔ یہ موسم بہار اور ستمبر میں کاشت کیا جاتا ہے ۔ انہون نے کہا کہ گنے کے پیداواری اخراجات زیادہ جبکہ آمدن کم ہے۔ اس لحاظ سے گنے کی فصل کسان کیلئے زیادہ پر کشش نہیں ہے تاہم زمیندار طبقہ اپنی زمینوں پر تھوڑا بہت گنا کاشت کر کے گزارا کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گنے کے ایک پور سے 14 تا 17 دھڑی تک گڑ بنتا ہے اس پر اخراجات بشمول ڈیزل اور مذدوری 2 ہزار سے 4 سو روپے تک ہوتی ہے۔ اگر گنے سے گڑ بنانے کیلئے کرائے کے بیلنے کو استعمال کیا جائے تو اس پر خرچہ 4 ہزار سے بڑھ جاتا ہے۔ گڑ کی ایک من کی قیمت تقریباً 6 ہزار روپے ہے۔اس طرح ایک سال کی یہ فصل پیداواری اخراجات کے تناظر میں کاشتکار کیلئے اتنی زیادہ پرکشش نہیں ہے۔

دوسری جانب اگر کاشتکار گنا شوگر مل پر لے جائے تو ملز انتظامیہ کی جانب سے کسان کو آدھی رقم دی جاتی ہے اور باقی رقم قسطوں پر دی جاتی ہے اس لئیے زمیندار گنا شوگر ملز لے جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ گنے کی فصل کی کاشت کیلئے درکار مداخل کے حوالے سے کسان کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا کھادیں اور دیگر زرعی مداخل مہنگے ہیں۔ ایک کنال زمین پر گنے کی کاشت پر کسان کا خرچہ تقریباً 6 سے 10ہزار روپے تک آتا ہے۔انہوں نے وفاقی اور خیبر پختون خواحکومت سے اپیل کی کہ وہ کسانوں کی معاونت کریں، کھاد سستی کریں اوو آبی گزرگاہیں ٹھیک کریں اور جو نہریں کچی ہیں انہیں پختہ کیا جائے تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ آبپاشی کا سارا نظام فرسودہ ہے کھالےکچے ہونے کی وجہ سے بھی آدھے سے زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے۔آبپاشی کا جدید نظام وضع کیا جائے تاکہ پانی کے ضیاع کا راستہ روکا جاسکے۔

جس زمانے میں گاٶئوں کی معیشت میں گھانی کا اہم کردار تھا اور اکثر پہاڑی اور پسماندہ علاقوں کے لوگ گانی کے سیزن میں انہی علاقوں کا رخ کرتے تهے اور گھانی میں جوگ (اگ جلانے والا)٬ پیڑ مار (گانی میں گنا دینے والا) اور گڑ چاکی بنانے والے کے ساتھ ساتھ پھوگ جمع کرنے والوں کی حیثیت سے کام کرتے تهے ان کو پوور کے حساب سے بھی اور نقد کی صورت میں بھی دیہاڑی دی جاتی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ گڑ اگرچہ ایک فطری ذائقہ اور رنگ رکهتا ہے لیکن گانی ایک تهکا دینے والا کام ہے

کیونکہ گانی سے پہلے گنے کی بجائی سے لیکر فصل پکنے اور گانی تک پہنچانا تھکا دینے والا کام ہے۔معاشرے میں نامیاتی غذا کے فروغ پزیر رجحان اور گڑ کی افادیت کے پیش نظر کسان کاروبارِی جنس کے ساتھ ساتھ سوغات کے لئےبھی گڑ تیار کرتے ہیں جورشتہ داروں اور دوست احباب کو تحفہ کے طور پر بھی بھیجا جاتا ہے ۔اس قسم کا گڑ خصوصی طور پر تیار کیا جاتا ہے جس میں کشمش ،،ناریل ،مونگ پھلی ،بادام سمیت مختلف میوہ جات استعمال کیے جاتے ہیں جن سے یہ ذائقہ میں بہہت لذیذ ہوتا ہے اور اسے سوغات کے طور پر بہت پسند کیا جاتا ہے۔ عام گڑ کی کھپت کے علاوہ اب اس مصالحہ دار گڑ کی طلب بھی بڑھ رہی ہے۔دیہات کے علاوہ شہروں کے لوگ بھی اسے نہایت رغبت سے کھاتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کا گڑ اپنے ذائقہ کی بناپر اندرون اور بیرون ملک بہت مشہور ہے اور یہ افغانستان،ایران کے پڑوسی ممالک کے علاوہ بعض عرب اور وسطی ایشیا ممالک کو بھی بھیجا جاتا ہے۔ گڑ نہ صرف ایک سستی اور ذائقہ دار سوغات ہے بلکہ طبّی ماہرین کے مطابق گڑ میں بعض مخصوص معدنیات کی بدولت اس کے انسانی صحت کے حوالے سے کئی فوائد بھی ہیں۔طب کے ماہرین گڑ کی افادیت کے بارے میں اس انداز سے گویا ہوتے ہیں کہ گڑ خون کی گردش کو تیز کرتا ہے٬ ہاضمہ درست کرتا ہے۔نزلہ زکام میں قوت مدافعت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے، جلد کی خشکی ختم کرتا ہے۔

گڑ کے فوائد کے بارے میں نیو یارک ٹائم میں ایک محقق نے لکها ہے:

"گڑ میں بعض مخصوص معدنیات شامل ہوتی ہیں جس میں زیادہ اہم کیلشیم ٬ پوٹاشیم ٬ ائرن اور میگنیشیم ہیں ان میں سے کوئی بھی چینی میں نہیں ہوتی۔

” گڑکی افادیت کے بارے میں صوابی یونیورسٹی ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم محقق بصیر محمد کہتے ہیں گڑ میں بہت زیادہ معدنیات پائی جاتی ہیں جیسا ائرن ٬ پوٹاشیم ٬ کیلشیم اور وٹامنز اور اس کے علاوہ ہاضمہ میں بھی اہم کام کرتا ہے اور زیابیطس کے مسائل بھی کم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا اگر چینی کو دیکها جائے تو چینی میں مذکورہ بالا منرلز٬ وٹامنز اور دیگر خاصیتیں نہیں پائی جاتیں اس حوالے سے گڑ زیادہ سود مند چیز ہے۔ بصیر محمد نے کہا اگر ہم گڑ کی مارکیٹ کی بات کریں تو یہ بہت کم ہے اور اس کے کچھ مسائل ہیں کیونکہ ہمارے کسان زیادہ تر اپنے گنے کو دوسرے صوبوں میں چینی کی پیدوار کے لئے دیتے ہیں اور اگر ہم کسانوں اور زمنیداروں کو اچھا پلیٹ فارم مہیا کریں اور ہمیں اچھے ایکسپورٹرز اور راہنمائی حاصل ہو تاکہ ان سے گڑ حاصل کریں اور بیرون ملک خاص طور پر وسطی ایشیاء برآمد کروائیں کیونکہ وہاں پر گڑ کی بڑی مارکیٹ اور اہمیت ہے اور اگر ایسا ہوتواس سے ہمارے کسانوں اور زمینداروں کے لئے بھی منافغ بخش ہوگا اور اس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی زیادہ ہوجائیں ۔

بدقسمتی سے دیگر غذائی اشیاء کی طرح گز میں بھی کئی کسانوں نے ملاوٹ شروع کردی ہے جس میں میٹھے سوڈا کا استعمال (رنگ کاٹ)٬ چینی کی آمیزیش اور بعض دیگرمضر صحت آشیاء شامل ہیں۔اس مضر صحت رجحان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو خالص نامیاتی اشیاء میسر ہوں اور وہ متبادل مضر صحت خوردنی اشیاء اپنانے پر مجبور نہ ہوں ۔ اگرچہ کسان اور زمنیدار بہت سے مسائل کا شکار ہیں جس میں خاص طور پر منڈی اور آڑھتی کے مسائل قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح فصل کے لئے پانی یقینی بنانا٬ مصنوعی کھاد اور ادویات کی قیمتیں کم رکھنا اور زراعت کے محکمے کی استعداد کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ کسانوں کی معاونت بڑهانا ٬ ٹریکٹروں اور باقی جدید آلات متعارف کرانے کے علاوہ گڑ کی برآمدکا بندوسبت کرنے٬ پیکنگ کا نظام٬ ،زیادہ پیداوار لینے، کسانوں کو تربیت دینے سے یقینی طور پر یہ صنعت ملکی معیشت اور مقامی ضروریات پورا کرنے کے لئے اہم ذریعہ ثابت ہوگی۔