اسلام آباد۔16جون (اے پی پی):زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے پالیسی ریٹ کو کسی تبدیلی کے بغیر 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، کمیٹی نے قراردیا کہ حقیقی شرح سود مہنگائی کو اس کے 5 تا 7 فیصد ہدف کی حد میں مستحکم رکھنے کے لیے معقول حد تک مثبت ہے،مالی سال 26ء کے دوران صنعت اور خدمات کے شعبے معاشی نمو کو بڑھاتے رہیں گے۔زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعدسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مئی میں مہنگائی کی سطح میں سالانہ بنیادوں پر 3.5 فیصداضافہ ہوا جو اس کی توقعات کے مطابق تھا جبکہ قوزی مہنگائی میں معمولی کمی ہوئی۔ گھرانوں اور کاروباری اداروں دونوں کی مہنگائی کی توقعات معتدل ہوئیں۔ امید ہے کہ مہنگائی آگے چل کر مالی سال 26ء کے دوران بڑھ کر ہدف کے مطابق مستحکم ہو جائے گی۔
زری پالیسی کمیٹی نے یہ بھی تجزیہ کیا کہ اقتصادی نمو بتدریج بڑھ رہی ہے اور پیش گوئی ہے کہ اگلے سال یہ مزید بڑھے گی اور اسے پالیسی شرح میں سابقہ کٹوتیوں کے تاخیر سے پڑنے والے اثرات سے بھی سہارا ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی نے بیرونی شعبے کو لاحق چند ممکنہ خطرات بھی محسوس کیے جبکہ تجارتی خسارے میں مستقل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مالی رقوم کی آمد کمزور ہے۔ مزید برآں مالی سال 26ء کے بجٹ کے چند مجوزہ اقدامات درآمدات بڑھا کر اس تجارتی خسارے میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔
اس تناظر میں کمیٹی نے آج کے فیصلے کو میکرو اکنامک استحکام اور قیمتوں کے استحکام کو پائیدار رکھنے کے لیے موزوں قرار دیا۔بیان کے مطابق کمیٹی نے اپنے گذشتہ اجلاس سے اب تک ہونے والی ان اہم تبدیلیوں کو پیش نظر رکھا۔ اول، مالی سال 25ء کی حقیقی جی ڈی پی نمو عبوری طور پر 2.7 فیصد بتائی گئی ہے اور حکومت اگلے سال کے لیے 4.2 فیصد جیسی بلند نمو کو اپنا ہدف بنا رہی ہے۔ دوم، تجارتی خسارے میں خاصے اضافے کے باوجود اپریل میں کرنٹ اکائونٹ بڑی حد تک متوازن رہا۔ ای ایف ایف کا پہلا جائزہ مکمل ہونے پر تقریباً ایک ارب ڈالر کی ادائیگی ہوئی جس کے بعد 6 جون کو سٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر بڑھ کر 11.7 ارب ڈالر ہوگئے۔ سوم، بجٹ کے نظرِثانی شدہ تخمینے بتاتے ہیں کہ پرائمری بیلنس کا سرپلس مالی سال 25ء میں جی ڈی پی کا 2.2 فیصد رہا جو گذشتہ سال کے 0.9 فیصد سے زائد ہے۔
اگلے سال کے لیے پرائمری سرپلس کا حکومت کا ہدف نسبتاً بلند یعنی جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہے۔ آخری یہ کہ تیل کی عالمی قیمتیں تیزی سے بحال ہوئی ہیں جس سے مشرق وسطیٰ میں بدلتی ہوئی جغرافیائی و سیاسی صورت حال اور امریکہ چین تجارتی کشیدگی میں کچھ کمی کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان پیش رفتوں اور ممکنہ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی کے جائزے کے مطابق حقیقی انٹرسٹ ریٹ مہنگائی کو اس کے 5 تا 7 فیصد ہدف کی حد میں مستحکم رکھنے کے لیے معقول حد تک مثبت ہے۔
مزید برآں کمیٹی نے منصوبہ بندی کے مطابق بیرونی رقوم کی بروقت وصولی، ہدف کے مطابق مالیاتی یکجائی کے حصول اور ساختی اصلاحات کے نفاذ کو اجاگر کیا جو معاشی استحکام برقرار رکھنے اور پائیدار معاشی نمو کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔ بیان میں بتایاگیاہے کہ پاکستان دفتر شماریات کے عبوری تخمینوں کے مطابق مالی سال 25ء کی دوسری ششماہی کے دوران معیشت کی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوا اور جی ڈی پی نمو بڑھ کر 3.9 فیصد تک پہنچ گئی جو مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی میں 1.4 فیصد تھی۔
یہ نتائج بڑی حد تک زری پالیسی کمیٹی کی پچھلی توقعات سے ہم آہنگ تھے۔ اہم فصلوں کی پیداوار میں خاصی کمی کے باعث زراعت کے شعبے نے مالی سال 24ء کے مقابلے میں کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے مقابلے میں خصوصاً مالی سال 25ء کی دوسری ششماہی میں صنعت اور خدمات کے شعبوں نے حقیقی جی ڈی پی کی نمو کو بڑھانے میں کردار ادا کیا۔ زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال 26ء کے دوران صنعت اور خدمات کے شعبے معاشی نمو کو بڑھاتے رہیں گے۔
اس تجزیے کو بلند فریکوینسی کے اظہاریوں کی رفتار میں تسلسل سے تقویت ملتی ہے، جن میں نجی شعبے کو قرضے، مشینری اور ثانوی اشیاء کی درآمدات اور کاروباری احساسات اور مالی حالات میں بہتری شامل ہیں تاہم زراعت کے امکانات بظاہر کمزور ہیں جس کی نشاندہی ناسازگار موسمی حالات میں خریف کی فصلوں کے تعلق ابتدائی معلومات سے ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال 26ء کے دوران حقیقی جی ڈی پی کی نمو مزید بڑھے گی۔ بیان کے مطابق اپریل 2025ء میں جاری کھاتہ تقریباً متوازن رہا جس سے جولائی تا اپریل مالی سال 25ئکے دوران مجموعی سرپلس 1.9 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
اقتصادی سرگرمیوں میں بہتری کے ساتھ درآمدات میں اضافہ جاری رہا جبکہ برآمدات کی نمو میں کمی آئی جس کی ایک جزوی وجہ دشوار عالمی تجارتی حالات تھے تاہم بیرون ملک مقیم پاکستانی کارکنوں کی ترسیلات زر مضبوط رہیں اور جاری کھاتے پر بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے میں اضافے کے اثرات کو مکمل طور پر زائل کر دیا۔ ان رجحانات کی بنیاد پر توقع ہے کہ مالی سال 25ء کے دوران جاری کھاتہ سرپلس میں رہے گا تاہم غیر یقینی عالمی تجارتی حالات اور درآمدات کی مسلسل مضبوط طلب کے باعث مالی سال 26ء کے دوران جاری کھاتے میں معمولی خسارے کا امکان ہے۔
دریں اثنا ء زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اگرچہ اب تک خالص مالی رقوم کی آمد کمزور رہی ہے تاہم جون 2025ء کے اختتام تک سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 14 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مستقبل میں بیرونی منظرنامہ جغرافیائی سیاسی کشیدگی، تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اتار چڑھائو، مجوزہ میزانیہ اقدامات کے ممکنہ منفی اثرات اور منصوبہ بند مالی رقوم کی آمد میں کمی جیسے متعدد خطرات کے حوالے سے زد پذیر ہے۔ بیان کے مطابق نظرثانی شدہ بجٹ تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 25ء کے دوران مجموعی مالیاتی اور بنیادی توازن دونوں میں مزید بہتری آئی ہے جس کی وجوہ محصولات میں اضافہ اور قدرے محدود اخراجات، خاص طور پر سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) ہیں۔
بجٹ میں بیرونی فنانسنگ میں کمی کے باعث، حکومت کا ملکی فنانسنگ ذرائع پر انحصار خاصا بڑھ گیا۔ مالی سال 26ء کے دوران حکومت مالی استحکام مزید بڑھانے کو ہدف بنا رہی ہے اور اس نے ابتدائی زر فاضل کا ہدف جی ڈی پی کا 2.4 فیصد مقرر کیا ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے اصلاحات کے موثر اور بروقت نفاذ بالخصوص ٹیکس کی اساس کو وسیع کرنے اور سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں (پی ایس ایز) کی نجکاری یا اصلاحات کے ذریعے مالیاتی استحکام کے طے شدہ اہداف حاصل کرنے پر زور دیا۔ بیان کے مطابق 30 مئی تک زر وسیع کی نمو معتدل ہوکر 12.6 فیصد رہ گئی جو زری پالیسی کے گذشتہ اجلاس کے موقع پر 13.3 فیصد تھی۔ اس کا سبب بینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثوں میں کمی آنا ہے، کیونکہ خالص میزانی قرض گیری کی نمو میں کمی آئی ہے۔
دریں اثناء مالی حالات میں نرمی اور کاروباری احساسات میں بہتری کے تناظر میں نجی شعبے کے قرضوں کی مضبوط نمو تقریباً 11 فیصد رہی۔ بڑے قرض گیروں میں ٹیکسٹائل، ٹیلی مواصلات اور تھوک اور خردہ شعبے شامل تھے جبکہ صارفی مالکاری میں بھی تیز رفتاری سے اضافہ ہوا۔ اسی موقع پر کمیٹی نے زر محفوظ کی نمو میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا جس کی وضاحت زیر گردش کرنسی میں عید کے موسمی اضافے سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے سٹیٹ بینک کو اپنے سیالی ادخالات میں اضافہ کرنا پڑا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بین البینک شبینہ ریپو ریٹ پالیسی ریٹ کے قریب رہے۔
رپورٹ کے مطابق حسب توقع مئی میں عمومی مہنگائی اپریل کے 0.3 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر 3.5 فیصد سال بہ سال ہوگئی۔ مہنگائی کی شرح میں یہ اضافہ بڑی حد تک غذائی اجناس کی قیمتوں کے موافق اساسی اثر کے بتدریج خاتمے کے ساتھ ساتھ قوزی گرانی کے تسلسل کی وجہ سے تھا۔ اس کے برعکس توانائی کی قیمتیں گذشتہ سال کے مقابلے میں کم رہیں جس کی بنیادی وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اعتدال ہے۔
مزید برآں زری پالیسی کمیٹی کے ابتدائی تخمینے ظاہر کرتے ہیں کہ حالیہ بجٹ کے اقدامات کا مہنگائی کے منظر نامے پر محدود اثر پڑے گا تاہم مہنگائی میں کچھ قلیل مدتی اتار چڑھائو کی توقع ہے، اس کے بعد یہ بتدریج بڑھ کر 5 تا 7 فیصد کے ہدف کی حد کے اندر مستحکم ہوجائے گی۔ البتہ یہ منظر نامہ علاقائی و جغرافیائی تنازعات کی وجہ سے عالمی رسدی زنجیر میں آنے والے ممکنہ تعطل، تیل اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھائو اور ملک میں توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل کے وقت اور اس کے حجم جیسے خطرات سے مشروط ہے۔