سیلاب نے تین کروڑ سے زائد آبادی کو متاثر کیا ہے، پاکستان بہت غریب ملک ہے،امریکہ سمیت عالمی برادری ہماری مدد کرے، مفتاح اسماعیل

73
حکومت معیشت اور سیلاب سے پیدا ہونے والے چیلنجوں اور مشکلات سے نمٹنے کیلئے تیارہے، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل

لاہور۔10ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیلاب نے تین کروڑ سے زائد آبادی کو متاثر کیا ہے، پاکستان بہت غریب ملک ہے،امریکہ سمیت عالمی برادری ہماری مدد کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کی رات یہاں مقامی ہوٹل میں امریکی بزنس فورم کے رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر امریکی قونصل جنرل لاہور ولیم کے مکانیولے بھی موجود تھے۔

وزیر خزانہ نے سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نقصان کا تخمینہ ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر ہے، 6500کلومیٹر سڑکیں، 246پل، سترہ لاکھ مکان تباہ ہوگئے ہیں، دس لاکھ جانور ہلاک ہوئے اور 1300لوگ شہید ہوئے، سندھ کی پوری کاٹن تبا ہ ہوئی جو امپورٹ کرنا پڑے گی جبکہ چاول کی دو تہائی فصل بھی تباہ ہوگئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی سطح پر پٹرول، گیس، فرنس آئل اور کوئلہ کی قیمتیں کئی گنا بڑھیں، مہنگی اشیاخرید کر سستی نہیں دے سکتے، سبسڈیز کا خاتمہ آئی ایم ایف کی شرط تھی، وزیراعظم کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی ، اس وقت ڈیزل پر ساڑھے سات روپے جبکہ پٹرول پر ساڑھے سینتیس روپے ٹیکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی، پاکستان کی برآمدات31ارب ڈالر جبکہ درآمدات 80ارب ڈالر ہیں، کوئی بھی ملک اتنے بڑے تجارتی خسارے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ 2013سے 2018کے دوران نواز شریف حکومت نے بجلی کی پیداوار دوگنی کردی مگر بعد کی حکومت نے ایکسپورٹ اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دوتہائی برآمدات ٹیکسٹائل پر مشتمل ہیں، دیگر شعبوں کی برآمدات بڑھانے کی بھی ضرورت ہے، نواز حکومت نے ٹیکس ٹو جی پی کی شرح 11.1فیصد پر چھوڑی تھی جو پی ٹی آئی حکومت میں کم ہوا، اس وقت یہ ساڑھے نو فیصد کے قریب ہے، اتنے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی اور ایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی کے متحمل نہیں ہوسکتے، اگر ان دونوں کی شرح پندرہ فیصد ہوجائے تو حکومت کو امداد مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ جامشورو پاور پلانٹ سے ایک یونٹ بجلی 59روپے کی بن رہی ہے جو صارفین تک پہنچنے پر 78روپے کی پڑتی ہے، صارفین کو فیول اور ایل این جی کی کاسٹ ٹرانسفر کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جب اپریل میں برسراقتدار آئے تو ڈیفالٹ کا شدید خطرہ منڈلا رہا تھا، زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے دس ارب ڈالر تھے جبکہ قرضوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے لیے مجموعی طور پر چھتیس ارب ڈالر درکار تھے لہذا یہ خطرہ ٹالنے کے لیے زمینی حقائق پر مبنی سخت فیصلے ناگزیر تھے کہ اگر کسی ملک کے پاس تین ماہ کے زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہوں تو کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ اسے کوئی قرض نہیں
دیتا۔