کراچی۔2اگست (اے پی پی):ترجمان سندھ حکومت اور مشیر قانون بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا جو فیصلہ آیا اسے پی ٹی آئی کے لوگ اپنے انداز سے بیان کر رہے ہیں۔ آج کے فیصلے کے دو اہم پہلو ہیں کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ لی ہے جو غیر قانونی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو سندھ اسمبلی بلڈنگ کے آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت اپنے اکائو نٹس الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گی اور پارٹی سربراہ وہ تمام تفصیلات جمع کرواتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ بھی دیا ہےسربراہ کے طور پر عمران خان نے جو اکائو نٹس جمع کروائے وہ غلط ہیں اور وہ تمام تفصیلات ان کے دستخط سے جمع ہوئی ہیں۔
انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے 2009 سے 2013 تک غلط معلومات جمع کروائیں۔ سال 2018 میں عدالت کا حنیف عباسی کی درخواست میں فیصلہ سامنے آیا اور فیصلے میں عمران خان کو صادق و امین کہا گیا اور اس فیصلے کو تین رکنی بینج نے سنایا تھا اس میں حنیف عباسی کی درخواست کو مسترد کیا گیا اس وقت عدالت نے کہا کہ ان کے فنڈنگ کے معاملات کو دیکھنا الیکشن کمیشن کا کام ہے آج الیکشن کمیشن نے دستاویزات کے ساتھ اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اس عدالتی فیصلے کے مطابق اب عمران خان صادق و امین نہیں رہے اب اداروں کو ان کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آرڈر کے پیرا 50 میں ای سی پی نے واضح طور پر کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو غیر ملکی کمپنیوں اور افراد بشمول ہندوستانی نژاد افراد سے ممنوعہ فنڈز موصول ہوئے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان نے جو دستاویزات جمع کروائیں وہ سراسر غلط تھیں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 اب اہم ہے۔ شخصیات دیکھ کر اصول نہیں بنانے چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پرامید ہیں کہ عمر عطا بندیال اپنے سابقہ فیصلے کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ الگ الگ شخصیات کے لیے الگ الگ قانون ہوں اتنے عرصے سے الیکشن کمیشن کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی۔پنجاب میں کامیابی کے باوجود عمران خان کہہ رہے تھے کہ الیکشن کمشنر کو گھر بھیجا جائے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے غلط کاموں کا نتیجہ آنے والا ہے۔
عمران خان پر اب الزامات نہیں بلکہ آئینی ادارے کا فیصلہ ہے۔ عمران خان جرم کے مرتکب ہوئے ہیں قانونی اعتبار سے اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے لیے حکومت اس فیصلے کو عدالت لے کر جائے گی۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کیس میں ایک تنخواہ کو ڈکلیئر نا کرنے پر انہیں نا اہل قرار کر دیا گیا تھا جبکہ پانچ سال تک غلط معلومات الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی اب اسی اصول کے مطابق اس کیس میں بھی یہی فیصلہ ہونا چاہیے۔ قانون اس فنڈنگ کو ممنوع قرار دیتا ہے یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں زیر بحث رہا ہے۔
ثاقب نثار صاحب نے ایک کیس میں فرمایا کہ بیرونی فنڈنگ کو روکنے کا طریقہ ہے کہ وہ پالیسی پر اثر انداز نہ ہوں۔الیکشن کمیشن نے فیصلہ کردیا ہے کہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ممنوعہ فنڈنگ لی ہے اور غلط معلومات جمع کروائی گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک خط نہ لکھنے پر یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دیا گیا تھا عدالت نے نواز شریف کو اقامہ کی نہ ملنے والی تنخواہ پر نا اہل قرارد دیا تھا۔اب ہیٹ ٹرک کا چانس ہے تیسرا کیس بھی آگیا ہے۔ اپنے ہی سابقہ فیصلوں کی روشنی میں فیصلے کرنے ہوں گے۔