فیصل آباد۔6جون (اے پی پی):پاکستان گزشتہ15سالوں میں گنے کی پیداوار میں صرف اعشاریہ پانچ فیصد اور شوگر ریکوری میں دو فیصد اضافہ کر سکا ہے لہٰذا کماد کی جدید اقسام کو فروغ دے کر پیداوار میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔شوگر کین سپیشلسٹ ڈاکٹر شاہد حسین نے بتایاکہ پاکستان کماد کی کاشت کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہونے کے باوجود فی ایکڑ پیداوار اور شوگر ریکوری میں بہت پیچھے ہے جس کیلئے خصوصی اقدامات کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ زرعی مداخل سستاکرنے اور تمام وسائل سے استفادہ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایسے پروگرام صرف اسی صورت ہی سودمند ہیں جب ہم ان سے حاصل ہونیوالی قیمتی معلومات، تجربات اور نتائج کسانوں تک پہنچائیں کیونکہ اگر فارمرز کی پیداوار بڑھے گی تو اس سے سب کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ فصلوں کی روایتی پیداور پر اکتفا کر لینا درست نہ ہے لہٰذا ہمیں مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کوئی بھی ہو بری نہیں ہوتی تاہم اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ٹیکنالوجی استعمال کر لی جائے اس کا مقصد فی ایکڑ پیداوار کا زیادہ سے زیادہ حصول ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہم ایک ایکڑ میں کماد کے70ہزار پودے لگائیں تو پیداوار آٹھ سو من سے کم بالکل نہیں آئے گی ۔ انہوں نے کہاکہ کسانوں کیلئے سہولیات و رہنمائی کی کمی فرٹیلائزر، مشینری، ڈیزل، بجلی وغیرہ کی مہنگائی اور پانی و توانائی کی کمی جیسے مسائل پیداوار میں کمی کی وجہ ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ شوگر ملوں کے فاضل میٹریل کو فصلوں کی ذرخیزی کیلئے استعمال میں لایا جانا چاہیے تاکہ نامیاتی مادے کی کمی دور کی جا سکے۔