ادارہ جاتی اصلاحات کا حکومتی عمل درست سمت میں گامزن

اسلام آباد۔7مارچ (اے پی پی):ملک میں ادارہ جاتی اصلاحات اور مختلف سرکاری اداروں و محکمہ جات کی استعداد کار میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کے ذریعے ان کے امورکار کو بہتر خطوط پر استوار کرنا وقتاً فوقتاً اقتدار میں آنے والی متعلقہ حکومتوں پر عائد ایک بڑی ذمہ داری تھی۔

اگرچہ ماضی کی حکومتوں کی طرف سے سرکاری محکموں اور حکومتی ملکیت اداروں کی استعداد کار میں بہتری کے بلند و بانگ دعوے تو کیے جاتے رہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان ریلویز، قومی فضائی کمپنی (پی آئی اے) اور پاکستان سٹیل ملز جیسے بڑے سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے اداروں کے نظم ونسق میں مسلسل انحطاط اور مالیاتی عدم موزونیت واضح طور پر دیکھی گئی۔

وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے سرکاری اداروں میں اصلاحات کے تحت ان کو مالی طور پر خود مختار بنانے اور کارکردگی میں بہتری کا بیڑا اٹھایا ۔ اس سلسلہ میں ممتاز اقتصادی ماہر اور معروف اصلاحات پسند ڈاکٹر عشرت حسین کو اس کام کیلئے وزیراعظم کا مشیر تعینات کیا گیا۔

اصلاحات کی ضرورت،اہمیت اور عملدرآمد کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ یہ ایک کٹھن کام ہے جواس مرتبہ مرحلہ وار انداز میں انجام دیا جارہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ قومی تعمیرنو میں سرکاری اداروں کے معاون کردار کے پیش نظر ان اداروں کو درست سمت میں گامزن کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جائیں گے۔ ”اے پی پی“سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصلاحات کے عمل کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلے مرحلہ میں وفاقی اداروں میں ایک ہی طرح کے کام کرنے والے اداروں کوباہم ضم کرکے ان کی تعداد کم کی گئی ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ بغیر کسی مستقبل کی منصوبہ بندی کے سرکاری اداروں کی تعداد 441 تک بڑھ چکی تھی، ہم نے ان میں سے بعض اداروں کے ادغام، بند کرنے یا نجکاری کے ذریعے ان کی تعداد کو 342 تک کم کیا ہے۔

دوسرے مرحلہ کے بارے میں ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایا کہ پی آئی اے ، پاکستان ریلویز، پاکستان سٹیل ملز اور دیگر سرکاری اداروں کی بحالی ، تعمیرنو اور تشکیل نو کے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہم ان اداروں کو حکومت کے ماتحت یا پاکستا ن سٹیل ملز کی طرح پبلک- پرائیویٹ شراکت داروں کے تحت منافع بخش بنانے کے خواہاں ہیں۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے مزید کہا کہ سول سروسز کی اصلاحات کا عمل ادارہ جاتی اصلاحات کا تیسرا اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی اصلاحات کو حتمی شکل دی جا چکی ہے اور بعض پر تو عملدرآمد بھی کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری نظر میں ملک کی سول سروسز میں کارکردگی کی جانچ پڑتال اور ترقی کی پالیسی، سول سروسز کی بنیادی کمزوریاں ہیں کیونکہ پہلے سے موجود پالیسی سے ہم اچھی اوربری کارکردگی کے حامل سول سرونٹس میں فرق نہیں کر سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ملازمین کی سالانہ کانفیڈنشل رپورٹ (اے سی آر) پر انحصار کرنے کی بجائے ملازمین کی کارکردگی جانچنے کیلئے کارکردگی کے کلیدی اعشاریے متعارف کرائے گئے ہیں۔ اب محض سنیارٹی کی بنیاد پر ترقی نہیں ہو گی بلکہ کارکردگی، ٹریننگ اور اہلیت کی بنیاد پر ترقی دی جائے گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایا کہ جب پروموشن رولز نافذ کئے گئے تو ان کو عدالت میں چیلنج بھی کیا گیا تھا تاھم فیصلہ دیا گیا کہ رولز میرٹ پر بنائے گئے ہیں اور ان میں کچھ غلط نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سول سروس ریفارمز کے تحت وفاقی حکومت کی آسامیاں 6 لاکھ 40 ہزار سے 5 لاکھ 70 ہزار تک کم کی جا رہی ہیں اور اس حوالہ سے گریڈ ایک تا 16 کی 70 ہزار آسامیوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی جانے والی بچت سے سول سرونٹس کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی۔

اسی طرح سینٹرل سپیئریر سروسز (سی ایس ایس) کی اصلاحات پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحات کے پیکیج کے نفاذ کے بعد پروفیشنلز کی ترقی کے مواقع بڑھیں گے۔ ہم نیشنل ایگزیکٹو سروس کو عام ملازمین اور ماہرین کی درجہ بندی کی تجویز دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی ایس ایس کے امتحانات کے طریقہ کار کی تنظیم نو کے تحت امیدواروں سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ اپنی دلچسپی کے مضامین کے امتحان دے کر اپنی مرضی کی سروس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی سطح کے مقابلہ کے امتحان میں شرکت سے قبل امیدواروں کو اپنی دلچسپی کے شعبہ کا انتخاب کرنا ہو گا۔ اصلاحات کے چوتھے مرحلہ کے بارے میں ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ دفتری طریقہ کار کو پرانے فائل سسٹم کی بجائے الیکٹرانک آفس ورک (ای آفس) میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

تمام تر مواد ویب سائٹ پر دستیاب ہو گا اور بہت سے کیسز میں عوام کو دفتروں کے چکر نہیں لگانا پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ جاتی اصلاحات کے چاروں مرحلوں پر عملدرآمد مختلف مراحل میں ہے اور یہ عمل آنے والے دنوں میں تیز کیا جائے گا ہم فیصلے کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ عملدرآمد بھی کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جولائی 2019 میں وفاقی حکومت نے محکموں کی تنظیم نو کی منظوری دی تھی اور ایکملدرآمد کمیٹی فیصلوں کے نفاذ کو یقینی بنا رہی ہے۔

پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نےادارہ جاتی اصلاحات کے حوالہ سے کہا کہ ادارہ جاتی اصلاحات صرف قوانین اور پالیسیز میں ترامیم ہی نہیں بلکہ یہ رویہ جاتی انتظام کار بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحات کو کامیاب بنانا بڑا اہم ہے، ہمیں صرف قوانین میں سادہ سی تبدیلی کی ہی نہیں بلکہ دہائیوں پرانی ذہنیت کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر پالیسیز اور رولز کی کوئی کمی نہیں ہے صرف ان کے نفاذ اور عملدرآمد کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بدلتے ہوئے عالمی رجحانات پر توجہ دینا ہو گی اور کام کرنے کے جدید اور مرکوز طریقہ کار کی جانب بڑھنا ہو گا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین کی جانب سے اصلاحات کے عمل کو کامیاب بنانے کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ اصلاحات کو بیک جنبش قلم متعارف کرانے کی بجائے وزیراعظم کے مشیر مرحلہ وار اصلاحات کو متعارف کرا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اصلاحات کا مرحلہ وار نفاذ ایک خوش آئند امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ جاتی اصلاحات کے تحت غیر فعال سرکاری اداروں کو ضم یا ختم کرکے اداروں کی تعداد تقریباً ساڑھے چار سو سے کم کر کے ساڑھے تین سو تک کی گئی ہے۔ مختلف اداروں سے ایک ہی کام کرانے کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح سول سروسز ریفارمز کے حوالہ سے ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ اس سلسلہ میں بھی مرحلہ وار اصلاحات کا عمل جاری ہے جو ایک اچھا عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحات کا عمل آہستہ آہستہ اور ان پر مکمل عملدرآمد کا متقاضی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اصلاحات کا مطلب رویوں اور انتظامی طریقہ کارمیں تبدیلی لانا ہے اور اس سلسلہ میں اصلاحات سے خوفزدہ گروپوں کی آرا حاصل کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ بصورت دیگر اصلاحات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔