اسلام آباد۔20اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کے آئین و قانون کو ماننے والے ہیں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہم ایک بھگوڑے سے معافی مانگیں، ہم کیوں معافی مانگیں؟،شہباز شریف ہوں یا اسحاق ڈار عدالتوں میں گھسٹینے کی باتیں کرتے ہیں، تین سال سے انتظار کر رہا ہوں کہ کب مجھے لندن کی عدالتوں میں لے جائیں گے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، مذاق بن گیا ہے کہ ایک شخص چوری اور منی لانڈرنگ کر کے دوسرے ملک بیٹھ کر کہتا ہے کہ میں سیاسی پناہ گزین ہوں، اسحاق ڈار اگر بے گناہ ہیں تو واپس پاکستان آ کر عدالتوں میں اپنے مقدمات کا سامنا کریں، میری اطلاع کے مطابق وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں، واپس نہیں آئیں گے، آنے والے دنوں میں بدعنوان عناصر کے خلاف کیسز منطقی انجام کی طرف جائیں گے، حکومت کے پاس ایوان میں سادہ اکثریت ہے، نیب ترمیمی آرڈیننس منظور کرا لیں گے۔
بدھ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کے بارے ملکی عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ ایک شخص لندن میں بیٹھ کر ہمارے ملک کے نظام کے خلاف ہنس رہا ہے اور مذاق اڑا رہا ہے، میں جو بھی بات کرتا ہوں دلیل اور ثبوت کے ساتھ کرتا ہو، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم ایک بھگوڑے اور سیاسی پناہ لینے والے سے معافی مانگیں۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار وزٹ ویزے پر برطانیہ گئے، برطانوی قانون کے مطابق 6 ماہ سے زائد نہیں رک سکتے، اسحاق ڈار تو 2018ءمیں ہی برطانیہ چلے گئے تھے ابھی تک واپس نہیں آئے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی برطانیہ میں کیا قانونی حیثیت ہے؟ برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے والے دفتر کے پاس اسحاق ڈار دیکھے گئے تھے اور میری اطلاع کے مطابق وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف خیالاتی مقدمے میں اسحاق ڈار خیالاتی طور پر جیت بھی گئے ہیں، مجھے پتہ ہی نہیں کہ میرے خلاف لندن میں کیس کیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مشیر احتساب نے کہا کہ انٹرپول ریڈ لسٹ کے ذریعے مطلوب شخص کی نشاندہی کرتا ہے، اس کے بعد انٹرپول ایک حوالگی کی درخواست کا مطالبہ کرتا ہے، موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد برطانوی حکومت سے اسحاق ڈار کی حوالگی کی درخواست دی تھی، پاکستانی اور برطانوی حکام کے درمیان ایم او یو پر دستخط کے بعد قانونی مرحلہ شروع ہوا جو ابھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر اسحاق ڈار کا پاسپورٹ منسوخ ہوا تھا، اسحاق ڈار کا پاسپورٹ منسوخ ہوا ہے ان کی شہریت ابھی بھی ہے، وہ واپس پاکستان آ جائیں اور عدالتوں میں اپنے مقدمات کا سامنا کریں، میری اطلاع کے مطابق وہ پناہ لے چکے ہیں واپس نہیں آئیں گے۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ پاکستان میں اسحاق ڈار کے خلاف تمام اقدامات قانونی ہیں، عدالتی احکامات کی روشنی میں پاکستان میں ان کی تمام جائیدادیں ضبط ہوئیں، ان کی جائیدادیں نیب ریفرنسز کا حصہ ہیں، یہ لوگ ہر جگہ جھوٹ بولتے ہیں، اگر یہ سب جھوٹ ہے تو اسحاق ڈار کو چاہیے کہ واپس پاکستان آ کر عدالتوں میں اپنے مقدمات کا سامنا کریں، ان لوگوں نے سارا ڈھونگ رچایا ہے اور ہم عوام کو ان کے کارنامے یاد دلاتے رہیں گے کہ کن کارناموں کی پاداش میں یہ لوگ لندن بیٹھے ہوئے ہیں۔
سیاسی پناہ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی پناہ اس شخص کو دی جاتی ہے جس کے ساتھ کوئی ناانصافی ہو رہی ہو، اسحاق ڈار جب برطانیہ گئے تو اس وقت پاکستان میں انہی کی جماعت کی حکومت تھی اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی پناہ لینے کے حوالے سے ان کے پاس کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے مشیر احتساب نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعینات کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے، جلد ہی یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے گا۔
نیب ترمیمی آرڈیننس سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں طاقتور شخصیات ہیلے بہانے کر کے کیسز کا فیصلہ نہیں ہونے دیتیں، موجودہ حکومت جو آرڈیننس لائی ہے اس کے تحت ٹرائل ڈے ٹو ڈے ہو گا اور چھ ماہ تک کیسز منطقی انجام تک پہنچیں گے، حکومت کے پاس ایوان میں سادہ اکثریت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کو سادہ اکثریت سے کامیاب کروا لیں گے۔