اسلامو فوبیا: محرکات٬ مضر اثرات اور سدباب کے لئے حکومتی اقدامات

فیچر: اے پی پی

تحریر:ڈاکٹر واحداللہ ایوب الازھری

ترجمہ:جنت گل

اسلام امن وسلامتی کا سرچشمہ اور انسانیت کے مابین محبت ،احترام،مساوات اور رواداری کےدرس کا حامل آفاقی مذہب ہے کیونکہ پیار و محبت٬ آشتی اورعزت و وقار کے بغیر پرامن ،منصفانہ اورخوشحال معاشرے کی تشکیل کے تمام اسباب بے معنی او بے تاثیر تصور کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دل کی دنیاکو آباد کرنے اور سکون کے لئے مذکورہ بالا لوازمات تو ہر صورت میں بہت ضروری قرار پاتے ہیں جبکہ مطمئن زندگی گزارنے کیلئے ایک دین اور مذہب کے ذریعے عرفان کی منازل طے کرتے ہوئے ایک کامل عقیدے کے ساتھ یقین کی روشنی اس سے بھی زیادہ ضروری گردانی جاتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی عظیم ہستیوں نے حق کی تلاش کیلئے نہ صرف مختلف رستے و امور اپنائے بلکہ مذاہب کا وجود بھی اسی تلاش اور حقیقت کی جستجو کے طفیل ممکن ہوگیا ٬ تقریباً ہر مذہب نے حق تعالی شانہ کی معرفت کے ساتھ انسانیت کے احترام و مساوات اور بنی آدم کے درمیان امتیاز نہ برتنے کے آفاقی اور عالمگیر اصولوں کو اپنایا جو زندگی کا اصل فلسفہ اور محور ٹھہرے ہیں۔ اسی سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئےشاعر انسانیت عبدالرحمان بابا برملا یہ نعرہ مستانہ لگاتے ہیں:
وارہ د خپل ئحان پہ نظر گورہ کہ دانا ئی
اے عبدالرحمانہ جہان ٹول عبدالرحمان دے
ترجمہ: اگر دانا ہو توتمام انسانوں کو اپنی طرح سمجھنا
اے اللہ کے بندے (عبدالرحمان) تمام جہان میں بندے اللہ کے بندے ہیں

بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان محبت پر زندہ ہے۔کسی ہستی ، عقیدے ،چیز یا عمل سے محبت و عقیدت کے جذبات انسان کی فطرت میں شامل ہیں۔اس لئے اسلام کو دین فطرت بھی کہا جاتا ہے۔ہر عقیدے اور مذہب کے پیروکاروں کی اپنی مقدس ہستیوں سے عقیدت بھی فطری امر ہے جبکہ مسلمانوں کے لئے یہ معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اور اللہ تعالی کی نازل کردہ تمام کتب اور انبیاءکرام و ررسولوں پر ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔
بد قسمتی سے ماضی کی طرح موجودہ جدید دور میں بھی چند ایسے عناصر ہیں جو مذاہب کی تشریخ اپنی پسند اور کم علمی کی بنیاد پر کرتے ہیں اوراپنی نادانی کے سبب انسانوں کے درمیان امتیاز و نفاق کا سبب قرار پاتے ہیں۔ آج کل اسی لاعلمی اور کم فہمی کا شکار ہمارا مذہب اسلام بھی ہے جس سے چند عناصر نفرت اور تعصب برتتے ہیں اور ہماری مقدس ہستیوں کی توہین کے رستے پر گامزن ہیں ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوف،نفرت اور تعصب پر مبنی اس طرز عمل اور سوچ کے لئے اسلامو فوبیا کے الفاظ یا اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
یہ اصطلاح دو الفاظ اسلام اور فوبیا کا مرکب ہے٬ اس میں اسلام امن وسلامتی کے معانی رکھتا ہے جبکہ دوسرا لفظ فوبیا ہے جس کے معانی خوف اور اندیشہ رکھنا ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری بھی ہے جس میں ایک نفسیاتی مریض کسی مخصوص چیز یا صورتحال سے خوف یا ڈر محسوس کرتا ہے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم پروفیسر ادریس نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایک عالمگیر دین ہے اور دین اسلام قیامت تک کے لئے ہے، جتنے بھی انسان دنیا میں آئیں گے یہ ان سب کے لئے ہے، یہ دین اسلام بنی نوع اسلام کے لئے اللہ کی ایک نعمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا یعنی اسلام سے ڈرنا یا نفرت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دین اسلام تمام مخلوقات کے لئے ایک رحمت بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس دین کو غالب کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

 

پروفیسر ادریس نے کہا کہ دین اسلام کے خلاف ہر وقت اور ہر زمانے میں لوگ ابھرے ہیں حالانکہ یہ امن اور سلامتی کا دین ہے، اس دین کا اپنا ایک اصول ہے اور ہر انسان کو ان اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہر معاشرے میں منفی عناصر ہوتے ہیں اور وہ ایک فطری نظام کے خلاف بغاوت کرنے پر اتر آتے ہیں۔ وہ تمام دنیا میں سازشیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے خلاف بھی پروپیگنڈا کرتے ہیں اور لوگوں کو اسلام سے ڈراتے ہیں۔ پروفیسر ادریس نے کہا کہ انسان تو دو مرکب سے بنا ہے، ایک بدن اور دوسری روح ۔لیکن یہ لوگ صرف بدن کی ضروریات کو دیکھتے ہیں اور روح کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔
اسلاموفوبیا کی اصطلاح کا گذشتہ چند دہائیوں میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے اور اس سے یہ بے بنیاد مطلب اخذ کرلیا گیا ہے کہ اسلام ایک متعصب دین ہے جو غیر مسلموں کے ساتھ ناروا رویہ روا رکھتاہے اور یہ کہ مسلمان اسلام کے خلاف ہر بات اور کام کو مسترد کرتا ہے۔ اگر چہ مسلمانوں میں بھی چند ایسے مفادپرست عناصر موجود ہیں جن کی دنیاوی لالچ یا کینہ پروری پر مبنی من مانی حرکات کے سبب دنیا کی انگلیاں ہماری طرف اٹھ رہی ہیں لیکن یہ عناصر آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور اور ان کی حرکات سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ڈاکٹر خورشید احمد نے اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بالخصوص نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف مذہب کے حوالے سے چند خدشات پائے جاتے ہیں خاص طور پر یورپ اور امریکا میں دیگر مذاہب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں کچھ ایسی باتیں موجود ہیں جو مسلمانوں کو دہشت گردی پر اکساتی ہیں جبکہ عمومی طور پر مسلمان اور خاص طور پر علمائے کرام سمجھتے ہیں کہ یہ الزم سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مسلمانوں میں چند ایک عناصر شدت پسند ہیں بھی تو وہ مذہب کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے۔ ان کے طرز عمل پر دین اسلام یا مسلمانوں کو موردالزام نہیں ٹھہراسکتے٬ اس غلط فہمی کو اگر دور کر لیا جائے تو مسلمانوں کے حوالے سے خدشات دور ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ مسلمانوں کو اپنے تشخص کو صحیح طور پر اجاگر کرنے کے لیے کام ہونا چاہیے تاکہ دنیا میں دیگر مذاہب کے لوگ یہ سمجھیں کہ یہ چند عناصر ہیں جن کا یہ رویہ ہے مسلمانوِں کو مجموعی طور پر اور اسلام کو مذہب کے طور اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
علمی حلقوں کے مطابق افسوسناک طور پر بالعموم انسانیت اوربالخصوص مسلم امہ کو درپیش اسلامو فوبیاکے مظہر کو بعض مذہب بیزار اورکم فہم افراد نے ایک تحریک اور نظریے کی شکل دینے کی بھی کوشش کی ہے جس سے اب دنیا اضطراب کا شکار ہے٬ ان عناصر نے اسلام کے معاشی و سیاسی نظام ٬ تہذیب و تمدن او ثقافت کو سمجھے بغیر مسلمانوں اور اسلام سے نفرت اور تعصب روا رکھنے کا نامناسب رویہ اپنارکھا ہے اور لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف و ہراس پیدا کررہے ہیں٬اسلاموفوبیا کا مظہر نائن الیون کے بعد زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آیا ہےاور اپنے عمومی مفہوم میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے منفی تاثرات کا حامل ہے جو بعض مغربی عناصر کے ادب و ابلاغ کے ذریعے شدت کے ساتھ آشکار ہوا ہے جیسا کہ کئی کتب اور ابلاغ کے مواد میں قرآن پاک کی تضحیک کی گئی اور نامناسب الفاظ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مستشرقین نے اسلامی شعائر٬ اسلامی قوانین ٬ رحمت العالمین نبی اکرم خاتم النبیین (ص) کی شفاف زندگی٬ اسوہ حسنہ اور دیگر مقدس ہستیوں کا مذاق اڑایا ۔ اسلام کے محبت ٬ برداشت٬ امن ٬ بھائی چارہ اور صلح کا آفاقی پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کیلئے صحابہ کرام (رض) کے فکری اور عملی جدوجہد کو خونریز جنگوں کی شکل دینے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اسی طرح گوانتاناموبے اور ابو غریب جیلوں میں قرآن پاک کے ساتھ نامناسب سلوک٬ ناروے اور سویڈن میں ایک مجمع میں قرآن پاک کو جلانے کا دلسوزواقعہ٬ نیوزی لینڈ میں جمعہ کی نماز کے دوران 51 افراد کا قتل٬ جرمنی میں نقاب پہننے کے سبب عدالت کے اندر قتل ، ڈنمارک میں بعض روزناموں خاص طور پر جیلنڈر پوسٹن میں رسول اکرم (ص) کے خاکے شائع کرنا٬ فرانس میں ایک استاد کا طالب علموں کو پیغمبر اسلام (ص) کے خاکے دکھانا ، چارلی ہیبڈو کی طرف سے توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت سمیت اسی طرح کے بہت سارے واقعات اسلاموفوبیا کے چندعملی مظاہر ہیں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے

مذہبی اور علمی طبقے اس امر پر متعجب ہیں کہ یہ نامناسب رویہ وہی عناصر اختیارکرتے ہیں او کررہے ہیں جو خود ایک مذہب کے پیروکار ہیں،سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کا تمسخر کیسے اڑاسکتے ہیں؟ مسلمان تو خود بشمول حضرت عیسی علیہ السلام،موسی علیہ السلام تمام پیغمبران کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ اس امرکواپنے ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں اور یہ اس لیے کہ پیار٬ محبت او ر یقین دنیا میں نفرت اور امتیازات کا تصور پیدا نہیں کرسکتا۔
اس وقت اسلامو فوبیا یعنی اسلام سے خوف اور گبھراہٹ کی سوچ نے مغرب میں خاص طور پر اور دنیا کےکچھ غیر اسلامی ممالک میں عمومی طور پر خطرناک شکل اختیار کی ہوئی ہے٬ اس حوالے سے بعض مغربی میڈیا نے بھی نامناسب کردار ادا کیا اور اپنے معاشرے کو اسلام کی ایک غلط او خوفناک تصویر پیش کی ہے۔ نائن الیون کے بعد اکثرمغربی روزناموں میں اس قسم کی خبریں اور رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں جس میں مسلمانوں کو عالمی معاشرے میں انتہا و شدت پسندی اور تناو کا سبب قرار دیا گیاہے اور یہ سب بعض عناصر کی کم عقلی اور عالمی سطح پر متعصب اور منظم منصوبہ کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے٬ اسی نادانی کے باعث فلسطین ٬ مقبوضہ کشمیر ٬ میانمار اور دیگرعلاقوںمیں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے اور اپنے مذہب٬ سرزمین٬ عزت اور ناموس کی حفاظت کرنے والے دہشت گردوں کی شکل میں پیش کئے جاتے ہیں جبکہ بعض ممالک خاص طور پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، ان پر تشدد٬ ظلم اور جبرروا رکھاجاتا ہےاور اسلام اور مسلمانوں کی نامناسب تصویر پیش کرنے کے باعث اس کے مضراثرات آج پوری دنیا کے مسلمانوں پر جاری ظلم٬ زیادتی٬ تشدد اور ان کے مقدسات کی تضحیک کرنے سے ان کے جذبات اور احساسات کو مجروح کرنےکی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ اس المناک صورتحال پر ہر مسلمان اور ذی شعور حلقے رنجیدہ ہیں اور پوری امت سراپا احتجاج ہے۔ فرانس میں مذموم خاکوں کی حالیہ اشاعت پر پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں پرزوراظہار مذمت اور بڑے بڑے عوامی مظاہرے اس کا عملی ثبوت ہیں کہ مسلمان نبی پاک کی حرمت پرکوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا اورتقاضائے ایمانی کے تحت کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

اندریں صورتحال میں اسلاموفوبیا کے سدباب کے لیے اقدامات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تویہ امر عیاں ہے کہ امن اور رواداری کی عالمی وضع اپنی جگہ برقرار رکھنے اور اسلامو فوبیا کے سدباب اور اسلام کا اصل تشخص دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے بالخصوص پاکستان کی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ دنیا کے کئی علاقے آج اسلامو فوبیا کے نامناسب اثرات کے سبب ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ پاکستان نے پوری دنیا کی توجہ انہی علاقوں خاص طور پر مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں پر جاری ظلم اور جبر کی طرف مبذول کرائی ہے اور ان تنازعات کے اسباب اور حقائق دنیا کے سامنے رکھے ہیں٬ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ سال 27 ستمبر اور رواں سال 25 ستمبر کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں اپنے خطاب میں اسلام کادرست تشخص پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی ریڈیکل اسلام کا کوئی تصور نہیں ہے٬ اسلام بس ایک ہے اور وہ حضرت محمد کا اسلام ہے، جو امن٬ مساوات، انصاف اور برداشت کا مذہب ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیاکہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس کے خلاف مسلمانوں کے ردعمل کو ان کی انتہا پسندی سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں بعض لوگ قصداً رسول پاک (ص) کی شان میں گستاخی کرتے ہیں لیکن اکثریت اس سے لاعلم ہے٬ ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حضرت محمد(ص) ہمارے لیے کتنے عزت اور تکریم والے پیغمبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نبی حضرت محمد (ص) ہمارے دلوں میں بستے ہیں اور جب کوئی گستاخی کرتا ہے تو ہمارا دل دکھتا ہے او ر دل کو پہنچنے والا دکھ جسم کے درد سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپنے حالیہ خطاب میں کہا کہ اسلامو فوبیا کو بھڑکاتے ہوئے بہت سے ممالک میں مسلمانوں کو بلا خوف و خطر نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہماری زیارتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، ہمارے پیغمبر خاتم النبیین ﷺ کی توہین کی جا رہی ہے، قرآن پاک کو جلایا گیا ہے اور یہ سب اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ہو رہا ہے، چارلی ہیبڈو کی طرف سے توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت سمیت یورپ میں ہونے والے واقعات حالیہ مثالیں ہیں، ہم سختی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر اشتعال انگیزی، نفرت و تشدد کی ترغیب دینے کو عالمی سطح پر غیر قانونی قرار دیا جائے، جنرل اسمبلی کو چاہیے کہ اسلامو فوبیا کے خاتمے کے لئے عالمی دن کا اعلان کرے۔
اسی واضح پالسی کے تحت صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں فرانس میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی سخت مذمت کی ۔ ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے بیان میں کہا کہ ” انتہا پسندی کے نامناسب فلسفے کی حوصلہ افزائی کرنے والا ایک زوال پذیر معاشرہ ہی تعصبات کی اجازت دے سکتا ہے”۔

وزیراعظم نے فیس بک کے سی ای او مارک ذکربرگ کو مراسلہ بھی ارسال کیا ہے جس میں فیس بک سے اسلامو فوبیا سے متعلق مواد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اسی طرح پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ اپنی بے حد محبت کے اظہار کیلئے وفاقی حکومت نے 30اکتوبر سے6 نومبر تک ہفتہ عشق رسول منایا ۔اس کے علاوہ سینیٹ آف پاکستان او قومی اسمبلی نہ بھی فرانس کے آزادی اظہار کے نام پر اسلام اور مسلمانوں پر حملے اور اسلامو فوبیا کے خلاف قرارداد منظور کئے۔
وزارت خارجہ نے بھی اس ضمن میں متحرک کردار نبھایا ہے اور عالمی سطح پر سامنے آنے والے اسلامو فوبیا کے واقعات کی نہ صرف پرزور مذمت کی بلکہ اس کے سدباب اور مضر اثرات سے باخبر رہنے کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے صدر کو متعدد خطوط ارسال کئے ہیں جبکہ پاکستان کواسلامو فوبیا کے اثرات کے سدباب کیلئے چین ٬ ترکی اور ملائیشیا بشمول متعدد ممالک کی معاونت بھی حاصل ہے۔

” ہندوستان میں اسلامو فوبیا” کے موضوع پر منعقدہ حالیہ سیمینار میں وزیر اطلاعات و نشریات سینٹر شبلی فراز نے اپنے خطاب میں کہا: مودی کو اسلامو فوبیا کے حوالے سے اپنے نامناسب عزائم پر سوچ اور فکر کرنا چاہیے اور عالمی امن کو داو پر نہ لگائیں۔ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں پر ظلم کی حوصلہ افزائی کے ساتھ مودی نے امن کو سنگین صورتحال سے دوچار کیا ہے

پاکستان اگر ایک طرف اپنے پیارے اور عظیم پیغمبر کی ناموس کے تحفظ کیلئے ہر وہ اقدام اٹھارہا ہے جس سے مستقبل میں اسی طرح کی بے حس اور مذموم حرکت کا سدباب ہو تو دوسری طرف دنیا کے امن او رواداری کا ماحول خراب ہونے سے بچانے کیلئے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جس سے پوری انسانیت اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع میسر ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر دیگرمذاہب کے پیروکارایک عالمگیر دین کی حیثیت سے حقیقی اسلام کوسمجھنے کے لئے اس کا بغورمطالعہ کریں اور نبی کریم کی تعلیمات پر عمل پیراہوتے ہوئے مسلمان اپنے قول اور فعل کے ذریعے اسلام کی صحیح ترجمانی کریں اور اسلام کے بھائی چارے ٬ برداشت اور امن کا آفاقی پیغام اپنے عمل اور رویہ کے ذریعے ظاہر کریں تو مقامی اور عالمی سطح پر اسلامو فوبیا پر قابو پانے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے پرچم تلے عالمی برادری اور او آئی سی کے تحت مسلم امہ پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلامو فوبیا سے درپیش کٹھن صورتحال کے تدارک کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ مقدس ہستیوں کی ناموس کا تحفظ یقینی ہو اور کسی مذہب کے پیروکاروں کی دلی آزاری نہ ہو۔