کورونا کی وبا، ماحول پر اثرات اور تقاضے

فیچر: اے پی پی سندھی سروس
ترجمہ : سرفراز کندھر

ایک ایسا ملک جس کے خوبصورت اور دلکش نظارے جب کیمرے کی آنکھ میں قید ہو رہے ہوتے ہیں تو وہ لوگوں   کو اپنی طرف ایسے مائل کرتے ہیں جیسے پیاسا پانی کو دیکھ کر تیز دوڑتا ہے۔ مگر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان مسحورکن نظاروں کا حامل اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک پاکستان بھی ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں بہت زیادہ ماحولیاتی آلودگی پائی جاتی ہے، ہوا آلودہ ہو رہی ہے، درختوں کی کٹائی نے ماحول کو ایسا بنا دیا ہے جہاں اب سانس لینا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پانی کے ذخائر میں دن بدن کمی ہو رہی ہے اور وہ آلودہ ہونے لگے ہیں جس کے باعث اب آلودہ ہوا کے بعد لوگوں کے پیٹ میں آلودہ پانی بھی پہنچ جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ اوطاقوں اور ڈرائنگ رومز سے زیادہ ہسپتال آباد نظر آ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر ہمیں ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہے تو اس مسئلے پر بھرپور توجہ دینا ہوگی اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس ماحولیاتی تبدیلی میں انسان کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے تو یہ سراسر غلط ہے، اس تمام کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ آلودگی کی سب سے بڑی وجہ انسان خود ہے اور وہی اس سے متاثر بھی ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا کے حالات کو دیکھا جائے تو ایک طرف اگر کورونا وائرس نے دنیا میں صحت، معیشت سمیت مختلف شعبہ جات میں تباہی برپا کر دی ہے تو دوسری جانب اس کے ماحول پر بعض مثبت اور کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا گذشتہ برس کے آخر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی اور دنیا میں تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئی، اس وبا کے باعث دنیا میں تیزی سے ہلاکتیں ہوئیں اور ہر طرف بے چینی اور بے یقینی والی کیفیت پیدا ہوگئی، تمام دنیا میں اس وائرس کے باعث خوف و ہراس پیدا ہوا۔ ایک طرف تو کورونا وائرس نے تمام دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا اور انسانی زندگیوں کو بھی مفلوج کردیا لیکن دوسری جانب کورونا وائرس ماحول کیلئے مسیحا بن گیا، دنیا میں زندگی کا کاروبار بند ہونے سے آلودگی کم ہوئی، سمندری اور جنگلی حیات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا، ماحول کو آلودہ کرنے والے ایندھن کے استعمال میں کمی ہوئی جس کے باعث اوزون کی متاثرہ تہہ دوبارہبہتر ہونا شروع ہوگئی، لوگوں کے سفر کم کرنے سے گاڑیوں کا استعمال بھی کم ہوگیا، گاڑیوں کی نقل و حمل کم ہونے کے باعث آلودہ گیسوں کی مقدار بھی کم ہوگئی۔ لاک ڈاون کے باعث گرین ہا س گیسوں کے اخراج میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی۔

کورونا کی عالمی وبا کی فضا میں ماحولیات کے شعبہ اور حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار کورونا کو تیزی سے شکست دینے والے ممالک میں ہو رہا ہے۔ دوسرے مالک کی طرح پاکستان کی معیشت پر بھی کورونا کے باعث منفی اثر پڑا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی معیشت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کا ماحولیات پر کافی اثر پڑا ہے، ہم نے خود ہی اپنے ماحول کو خراب کیا ہے، ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا ویڑن ہے کہ پاکستان کو صاف اور سرسبز بنانا ہے، اس لئے ہی خیبرپختونخوا میں لاکھوں پودے لگائے گئے ہیں اور تمام پاکستان میں درخت لگائے جا رہے ہیں۔ آج ہمیں سوچنا ہے کہ اپنی آنے والی نسل کیلئے کیا کر رہے ہیں اور اگر آج ہم ماحول کا خیال رکھیں گے تو ماحولیاتی آلودگی سے بچ سکتے ہیں اور اس کیلئے ہم سب کو مل کر ماحولیات کے حوالے سے کام کرنا ہوگا۔ سینیٹر فیصل جاوید کے مطابق کورونا کے باعث ماحولیات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں کیونکہ اس دوران لوگوں کی نقل و حمل، ٹریفک اور صنعتیں بند تھیں۔

زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے شعبہ زرعی تعلیم کے چیئرمین اور سندھ کے معروف زرعی اور ماحولیاتی ماہر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل کنبھر کا کوویڈ کے بعد ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کہنا ہے کہ کوویڈ سے قبل پاکستان سمیت دنیا بھر میں کارگو ٹریڈ اور ٹرانسپورٹیشن کی نقل و حمل بہت زیادہ تھی اور اس کے علاوہ سمندر کے ذریعے بھی ٹرانسپورٹیشن جاری تھی۔ انہوں نے کہا کہ بحری جہازوں کے ذریعے تجارت جاری تھی جبکہ کوویڈ کے حوالے سے مقامی سطح پردیہی علاقوں سے شہروں تک جو ٹرانسپورٹ چل رہی تھی وہ بند ہوگئی، اس سے روزگار پر تو اثرات مرتب ہوئے لیکن یہ امر ماحولیات کیلئے سودمند ثابت ہوا۔ شہر اور ہوٹلزبند ہوگئے اور کوڑاکرکٹ کسی حد تک کم ہوگیا۔ پروفیسر کنبھر نے کہا کہ کراچی کے ساحل پر لاکھوں ٹن ویسٹ مٹیریل جاتا تھا اور شہری سرگرمیاں بند ہوگئیں تو سالڈ اور لیکوڈ مٹیریل کی مقدار بھی کم ہوگئی۔ کوویڈ 19- کے ماحول پر مثبت اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سمندر کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک جو ٹریفک چلتی تھی وہ کورونا کے باعث بند ہوئی جس سے زمین اور پانی کو کچھ وقفہ ملا اور اس میں بہتری آئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایئر کارگو کے بند ہونے سے ایسے پرندے دوبارہ نظر آئے جو کئی عرصے سے نظر نہیں آ رہے تھے۔ اس صورتحال میں ماحولیات کیلئے ایک مستحکم ماحول بن چکا اور ماحولیات کے حوالے سے ایس ڈی جیز کے دو تین مقاصد بھی حاصل ہوئے ہیں۔ اگر ہم ماحولیاتی آلودگی باعث بننے والے مختلف اسباب کا جائزہ لیں تواس کا اےک بہت بڑا سبب صنعتوں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والا ہزاروں ٹن کوئلہ، گاڑیوں میں اضافہ اور اس میں استعمال ہونے والا ایندھن، بجلی بنانے کیلئے کوئلہ اور تیل کا بیجا استعمال ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا اور اس سوچ سے ہم اپنے خوبصورت دیس کی دھرتی کو بچا سکتے ہیں۔

ممبر قومی اسمبلی نفیسہ عنایت اﷲ خٹک کا ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کہنا ہے کہ کورونا کے باعث ماحولیاتی آلودگی پر مثبت اثرات پڑے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ نقصان بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ لوگ ماسک استعمال کرکے اس کو صحیح طریقے سے ٹھکانے نہیں لگا رہے، جگہ جگہ ماسک بکھڑے پڑے ہیں جس سے کورونا کے پھیلنے کے خطرات ہیں۔ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ماسک کو استعمال کے بعد کوڑا کرکٹ کے ڈبے میں ڈالیں اور گلیوں، ہوٹلوں، رش والی جگہوں پر ماسک پھینکنے کے بجائے اس کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔


وزیراعظم عمران خان ملک میں ماحول دوست فضا کو پروان چڑھانے کے لئے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کیلئے شہروں کی صفائی اور ملک میں اربوں پودے لگانے کا عزم رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلے صاف، سرسبز اور شاداب پاکستان کی تحریک بھی شروع کی گئی ہے۔ اس تحریک کے اقدامات میں شہروں اور دیہاتوں کی صفائی، صاف پانی، بیماریوں سے تحفظ اور سہولیات کیلئے اداروں کو مستحکم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت نے متعدد پروگرام شروع کئے ہیں جس میں سب سے پہلے عوام کو آگاہی دینا، تمام ملک میں پودے لگانا اور ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے منصوبے شروع کیے ہیں جس سے کسی حد تک ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور لوگوں کو آگاہی دینے میں مدد ملے گی۔یہ
امر قابل تحسین ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے کورونا کے ماحول میں بھی ماحول دوست اقداما ت بالخصوص بلین ٹری منصوبے کو بھرپور انداز میں جاری رکھا ہوا ہے اور معاشرے پراس کے مثبت اثرات عیاں ہیں جن کا اعتراف عالمی ادارے بھی کر رہے ہیں۔

کورونا سے درپیش کٹھن فضا میں اگر ماحولیات کے شعبہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ نہ صرف مثبت اثرات کو وان چڑھانے بلکہ منفی اثرات کو موثر اقدامات کے ذریعے دور کرنے کا متقاضی ہے جس میں نہ صرف حکومت بلکہ معاشرے کے تمام افراد پر انفرادی و اجتماعی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک ماحول فراہم کر سکیں۔