اسلام آباد۔23اپریل (اے پی پی):اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (اِپری) کے زیر اہتمام ”ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی قانون: چیلنجز اور مواقع” کے عنوان سے دو روزہ انٹرنیشنل لاء سمر سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار کا افتتاح لیفٹیننٹ جنرل (ر) ماجد احسان نے کیا۔ انہوں نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور اس اہم موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی قانون کے درمیان تعلق آج کے عالمی منظرنامے میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ خاص طور پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسے جدید ٹولز، عالمی قانون اور انسانی حقوق پر دور رس اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ ایسے سیمینارز نوجوان محققین اور ماہرین کو فکری بنیادوں پر مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس سیشن کے پہلے بین الاقوامی مقرر پروفیسر روبیٹو روپو، اسسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف انکونا (اٹلی) تھے، جنہوں نے ”مصنوعی ذہانت اور بین الاقوامی قانون” کے موضوع پر جامع لیکچر دیا۔ انہوں نے ”دی سسٹم آف آرٹیفشل انٹیلی جنس” پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی ٹولز کی خصوصیات میں خود مختار فیصلے کرنے کی صلاحیت، کسی مقصد کے تحت کام کرنے کی رجحان، خود سے سیکھنے کی اہلیت اور مخصوص سطح کی خودمختاری شامل ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا اے آئی سسٹمز کو قانونی حیثیت دی جا سکتی ہے؟
پروفیسر نے اے آئی ٹولز کی مختلف اقسام کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اٹلی میں مارچ 2023 میں ChatGPT پر پابندی لگائی گئی تھی اور DeepSeek پر بھی آج کل پابندی ہے کیونکہ وہ ڈیٹا پروٹیکشن قوانین پر پورا نہیں اترتے۔ انہوں نے چند عالمی عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ پروفیسر نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت ایک فائدہ مند مگر خطرناک شعبہ ہے، یہ نجی اور سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنا سکتا ہے، لیکن اگر اسے بغیر ریگولیشن کے چھوڑ دیا جائے تو شفافیت، غیر جانبداری، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دوسرے سیشن میں چیئر انٹرنیشنل لاء (اِپری) ماہم نوید نے ”بین الاقوامی تنظیمیں، قانون اور ٹیکنالوجی” کے موضوع پر تفصیلی اور جامع خطاب کیا۔
انہوں نے اپنے لیکچر کا عنوان دیا: ماہم نوید نے کہا کہ جب ہم ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی دنیا میں جی رہے ہیں، تو یہ لازمی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ایسے ادارے موجود ہوں جو ان ٹیکنالوجیز کے سماجی، اخلاقی، اور قانونی اثرات پر نظر رکھیں۔ ان تنظیموں کا کردار صرف مشورے دینے تک محدود نہیں بلکہ یہ ادارے فعال پالیسی سازی، ضابطہ بندی، تحقیق، اور قانون سازی کے عمل میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِپری کے زیرِ اہتمام ”انٹرنیشنل لاء سمر اسکول” کے دوسرے دن کا آغاز اویس انور کے فکر انگیز لیکچر سے ہوا، جنہوں نے ”جنگ، بین الاقوامی قانون، اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز” کے موضوع پر تفصیلی خطاب کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز اس بنیادی سوال سے کیا کہ آیا آج کی جنگیں اور ان میں استعمال ہونے والی نئی ٹیکنالوجیز بین الاقوامی قانون کے دائرہ کار میں آتی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے زور دیا کہ روایتی جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے اور اب جنگ کا میدان سائبر اسپیس، مصنوعی ذہانت اور خود کار ہتھیاروں جیسے عوامل میں تبدیل ہو رہا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ موجودہ دور میں جنگ صرف روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہی بلکہ سائبر حملے، ڈرون ٹیکنالوجی، اور خودکار مشینیں بھی اس کا حصہ بن چکی ہیں۔
اویس انور نے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی انسانی قانون کا بنیادی مقصد انسانی جانوں کا تحفظ ہے، مگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اس قانون کو چیلنج کر رہی ہیں۔ مثلاً: خود کار ہتھیاروں میں انسانی فیصلہ سازی کا فقدان ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس سیشن کے اختتام پر طلباء و طالبات نے سوالات کیے جن کا اویس انور نے تفصیل سے جواب دیا۔ شرکاء نے ان کی علمی بصیرت کو سراہا اور کہا کہ یہ موضوع نہ صرف جدید دور کی جنگی صورتحال کو سمجھنے میں مددگار ہے بلکہ اس سے بین الاقوامی قانون کی نئی جہتوں کا ادراک بھی ہوتا ہے۔ دوسرے دن کا دوسرا سیشن ڈاکٹر انیل سلمان کے فکر انگیز اور بصیرت افروز لیکچر پر مشتمل تھا۔ ان کا موضوع ”مصنوعی ذہانت کے شوروغل سے آگے: جدت اور ذمہ داری کے درمیان توازن” تھا۔
ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ کس طرح دنیا میں اے آئی کے گرد ہائپ یا شوروغل بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، جس میں اکثر حقیقت سے زیادہ توقعات اور خوف شامل ہوتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ صرف اے آئی کی صلاحیتوں پر بات کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے سماجی، اقتصادی اور اخلاقی اثرات پر بھی توجہ دینا لازمی ہے۔ اِپری کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ماجد احسان نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ ہم نے اِپری کے تحت منعقد کیے گئے دو روزہ انٹرنیشنل لاء سمر اسکول کا اختتام کیا، یہ دو دن نہ صرف علمی لحاظ سے بھرپور تھے بلکہ ایک فکری تجربہ بھی تھے، جہاں ٹیکنالوجی، بین الاقوامی قانون، انسانی اقدار، اور پالیسی سازی جیسے اہم موضوعات پر گہری گفتگو ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اس سمر اسکول کا مرکزی خیال یہ تھا کہ آج جب ٹیکنالوجی، بالخصوص مصنوعی ذہانت، ہمارے روزمرہ کے فیصلوں، ریاستی خودمختاری، جنگ و امن، اور عدالتی نظام کو متاثر کر رہی ہے تو ہمیں بین الاقوامی قانون کی نئی تشریحات کی ضرورت ہے۔ قانون کو جامد رکھنے کے بجائے، اسے ان نئی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمر اسکول ہمیں صرف معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ نہیں تھا، بلکہ یہ ہمیں سوچنے، سوال کرنے، اور بہتر عالمی نظام کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کا پیغام دے رہا تھا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=586788