اسلام آباد۔6ستمبر (اے پی پی):اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست خارج کرتے ہوئے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا نوٹیفیکیشن غیر آئینی قرار دے دیا۔ منگل کو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری ایڈوکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 123 ارکان اسمبلی نے استعفے دئیے صرف 11 کے منظور کیے گئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے طریقہ کار پر 2015ء میں عدالت فیصلہ کرچکی ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ2015ءسے صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ارکان اسمبلی کے استعفوں پر اسلام آبادہائیکورٹ کا 2015 کا فیصلہ پڑھ لیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، ڈپٹی سپیکر نے استعفے منظور کرتے وقت طریقہ کار پر عمل نہیں کیا،یہ عدالت اسپیکر کو کبھی ہدایت نہیں دیگی اور اسکی منشا اپنے فیصلے میں لکھ چکے،استعفی دینے والے ہر ممبر کو ذاتی طور پر اسپیکر کے پاس جانا چاہیے تھا،ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا وہ اس عدالت کے فیصلے کے بالکل خلاف تھا، یہ عدالت عوام کے منتخب نمائندوں کا احترام کرتی ہے، کیا اسپیکر نے استعفی دینے والے ممبران اسمبلی کو بلا کر اپنا اطمینان کیا تھا؟۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل عرفان قادر ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ عدالت وہ اطمینان کرے کیونکہ انہوں نے ان نمائندوں کو فریق بنا دیا ہے۔فیصل چوہدری ایڈوکیٹ نے کہا کہ کیا موجودہ اسپیکر نے جو استعفے منظور کیے انکو بلایا گیا تھا؟۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعت یا پارلیمان میں بیٹھے اشخاص اتنے اہم نہیں جتنے وہ لوگ جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں،یہ عدالت فیصلہ دے چکی کہ اسپیکر نے طریقہ کار پر عمل کر کے خود کو مطمئن کرنا ہے ۔
فیصل چوہدری ایڈوکیٹ نے کہا کہ مجھے دلائل دینے دیں میں نے اس عدالت کے بعد بہت سی جگہوں پر جواب دینا ہوتا ہے؟چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمیں سوچ بدلنی پڑیگی، پارلیمنٹ کا احترام کرنا چاہئیے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے فیصلے میں کچھ اصول وضع کر دیے ہیں، جب تک اسمبلی اراکین کے استعفے قبول نہ ہو جائیں کیا ان کی ڈیوٹی نہیں کہ لوگوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں؟۔
استعفی دینے والا ہر رکن انفرادی طور پر سپیکر کے سامنے پیش ہو کر استعفے کی تصدیق کرے،عدالت سپیکر قومی اسمبلی کواحکامات جاری نہیں کریگی،جو ڈپٹی سپیکر نے کیا وہ قوانین و عدالتی فیصلوں کے برخلاف تھا،عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کریگی۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کیس کو لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعاکی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔۔عدالت نے پی ٹی آئی کے مخصوص استعفوں کو منظور کرنے کے اسپیکر کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی ۔