اسلام آباد ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت کام کرنے والے تمام اداروں کو کم سے کم 37ہزار روپے کی اجرت لاگو کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے، نرسوں کو 30 ہزار سے 50ہزار روپے کا پیکج دیاجا رہا ہے ،وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ

114
Ata Allah Tarr
Ata Allah Tarr

اسلام آباد۔13ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت کام کرنے والے تمام اداروں کو کم سے کم 37ہزار روپے ماہانہ اجرت لاگو کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے، نرسوں کو 30 ہزار سے 50ہزار روپے کا پیکج دیاجا رہا ہے جو اس سے بھی زیادہ ہو ناچاہیے جبکہ پیرامیڈیکل سٹاف کو 29ہزار سے 30ہزار روپے تک تنخواہ دی جا رہی ہے، نجی ہسپتالوں کی انتظامیہ تجربے اور اہلیت کی بنیاد پر اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیتی ہے ،ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے احکامات کے مطابق انہیں بھی کم سے کم اجرت کی ادائیگی پر عملدرآمد کا پابند بنایا جائے گا، وزیراعظم نے نیوٹیک کو ہدایات جاری کی ہیں کہ مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں پاکستانی نرسوں کی مانگ پوری کرنے کے لئے نرسز کی تربیت پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے، بریسٹ کینسر کے حوالے سے پورے ملک میں بالعموم اور دیہی علاقوں میں بالخصوص ہر دو ماہ بعد ایک آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، ہم نے ذرائع ابلاغ سے بھی کہا کہ اس حوالے بلامعاوضہ آگاہی مہم چلائی جائے۔

جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران رکن قومی اسمبلی آسیہ ناز تنولی کے سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات عطا ءاللہ تارڑ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت کام کرنے والے تمام اداروں کو کم از کم 37ہزار روپے کی اجرت لاگو کرنے کی ہدایت کی ہے۔ نرسوں کو 30 ہزار سے 50ہزار روپے کا پیکج دیاجا رہا ہے جو اس سے بھی زیادہ ہو ناچاہیے جبکہ پیرامیڈیکل سٹاف کو 29ہزار سے 30ہزار روپے تک تنخواہ دی جا رہی ہے۔ حکومت نے ہدایت کی ہے کہ کم سےکم 37ہزار روپے کی اجرت کو جلد از جلد لاگوکیاجائے۔ رکن قومی اسمبلی نزہت صادق کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستانی نرسوں کی بہت زیادہ مانگ ہے، وزیراعظم نے نیوٹیک کو ہدایات جاری کی ہیں کہ مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں پاکستانی نرسوں کی مانگ پوری کرنے کے لئے ان کی تربیت پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے۔

منزہ حسن کے سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ نجی ہسپتالوں کی انتظامیہ تجربے اور اہلیت کی بنیاد پر اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیتی ہے، ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے احکامات کے مطابق انہیں بھی کم سے کم اجرت کی ادائیگی پر عملدرآمد کا پابند بنایا جائے گا۔ شرمیلا فاروقی کے سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت کے امراض ایک حقیقت ہیں مگر ہمارامعاشرہ اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے حوالےسے ہمارے دیہی علاقوں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، ملک میں ادارے موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک ادارہ قائم ہے جس میں ریپ وکٹمز کا علاج کیاجاتاہے۔

ڈاکٹرشازیہ ثوبیہ کے جواب میں وفاقی وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑنے کہا کہ بریسٹ کینسر کے حوالے سے پورے ملک میں بالعموم اور دیہی علاقوں میں بالخصوص ہر دو ماہ بعد ایک آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، ہم نے ذرائع ابلاغ سے بھی کہا کہ اس حوالے بلامعاوضہ آگاہی مہم چلائی جائے ۔شاہدہ اختر علی کے سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کے ساتھ پینے کے صاف پانی کے حوالے سے اچھی کوآرڈینیشن ہے ، حکومت نے صنعتوں کو خاص طورپر ہدایت کی ہے کہ وہ زیر زمین پانی کی آلودگی پھیلانے کو روکنے کے انتظامات کریں، اب دیہی علاقوں میں صنعتیں لگانے کی ضرورت نہیں ، صنعتیں صرف صنعتی زونز میں ہی لگائی جائیں گی۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مختلف مقامات پر واٹر فلٹریشن پلانٹس قائم کئے گئے۔

زہرہ ودود فاطمی کے سوال کے جواب میں وزیراطلاعات نے کہا کہ عالمی سطح پر 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کی وجہ سے اموات کاشکار ہوتی ہیں، اس مرض کے تدارک کے لئے شہری اور دیہی علاقوں میں تواتر سے آگاہی مہم چلائی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سرویکل کینسر سے عالمی سطح پر 13 ہزارخواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، یہ ڈبلیو ایچ او کے اعداد وشمار ہیں، اس مرض کے علاج کی بھی سکریننگ کی جاتی ہے ۔

طاہرہ اونگزیب کے سوال کے جواب میں وزیراطلاعات عطااللہ تارڑنے کہا کہ پہلے تمام لوگوں کو صحت کارڈکی سہولت حاصل تھی ، اسلام آباد میں 6 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افراد میں سے 2لاکھ 78ہزار لوگوں کوصحت کارڈدیاگیا ہے مگر اب فیصلہ کیاگیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے پی ایم ٹی سکور پر نظر ثانی کی جائے اور 32.5سے کم پی ایم ٹی سکور کے حامل خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ دینے کافیصلہ کیاگیا ہے، سرکاری ملازمین کو پہلے ہی صحت کی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں، وہ اپنے اپنے اداروں سے اپنے میڈیکل کے بل ری ایمبرس بھی کرا لیتے ہیں، اس حوالےسے ایکنک میں بھی ایک تجویز زیر غور ہے جس کےبعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائےگا۔