اسلام آباد۔27ستمبر (اے پی پی):اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ اسلام اور دیگر تمام مذاہب میں عبادت خانوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، عبادت گاہوں پر حملے، انہیں مسمار کرنا اور ان کی توہین قابل مذمت فعل اور رائج پاکستانی قوانین کے مطابق جرم اور شرعاً حرام ہے، کسی بھی مذہب میں نفرت انگیز رویوں، تشدد اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں، عالمی امن کے قیام کے لیے متنوع مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان حسن تعامل کی روایات کو فروغ دینے کے لیے موثر کاوشیں کی جائیں گی۔
یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل کے 234 ویں خصوصی اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہی گئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کی صدارت چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کی۔ خصوصی اجلاس کا عنوان ”بین المذاہب حسنِ تعامل: ریاست اور معاشرے کی ذمہ داریاں” تھا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسلام اور دیگر تمام مذاہب اساسی طور پر انسانی احترام اور تکریم کا درس دیتے ہیں، اس لیے مذاہب کے پیروکاروں کو اس حوالے سے اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔
کسی بھی مذہب میں نفرت انگیز رویوں، تشدد اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ مذہبی تعلیمات سے دوری اور مذہب کو سیاسی یا دیگر دنیوی مفادات کے لیے استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا مذہب کے نام پر تشدد، قتل، دہشت گردی یا ظلم کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے، ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کے لیے تمام مذاہب کے قائدین اپنا کردار ادا کریں گے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ عالمی امن کے قیام کے لیے متنوع مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان حسن تعامل کی روایات کو فروغ دینے کے لیے موثر کاوشیں کی جائیں گی۔ رسول اکرمﷺ، دیگر تمام انبیاء کرام اور مذہبی مقدسات کے احترام کو فروغ دینے کے لیے مذاہب کے قائدین مل کر کام کریں گے۔ جڑانوالہ اور اس قسم کے دیگر واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ملوث افراد کو فوری سزا ہوتی نظر آئے۔
اس سلسلے میں سانحہ سیالکوٹ کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے خصوصی اجلاس کو یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس قسم کے جرائم کے فیصلوں کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو دن رات سماعت کرکے ان جرائم پر اکسانے والے اشخاص اور منصوبہ بندی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دیں، آج کا اجلاس اس مطالبے کا اعادہ کرتا ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ عوام میں یہ رجحان بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیا جائے، ایسا کرنا قرآن و سنت، شریعت، آئین پاکستان اور متفقہ قومی دستاویز پیغام پاکستان کے خلاف ہے، اگر کوئی قانون ہاتھ میں لیتا ہے تو ریاست کو اس کے خلاف فوری اقدام کرنا چاہیے۔ اسلام اور دیگر تمام مذاہب میں عبادت خانوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ عبادت گاہوں پر حملے کرنا، انہیں مسمار کرنا، ان کی توہین کرنا قابل مذمت فعل اور رائج پاکستانی قوانین کے مطابق جرم اور شرعاً حرام ہے، مذہبی قائدین اس رجحان کے انسداد کے لیے اجتماعی کوششیں کریں گے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ بین المذاہب حسن تعامل اور تفاہم کو فروغ دینے اور پرامن طریقے سے مل جل کر رہنے سے ہی مذہبی، سماجی اور سیاسی مسائل پر قابو پایا جا سکتاہے۔ اس سلسلے میں مذہبی پیشوا اور ادارے اپنی ذمہ داری ادا کریں گے۔ دنیا میں نئی ابھرتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر اور مختلف شناختوں کے ساتھ منسلک افراد کی بڑی تعداد میں نقل مکانی اور نئے ملکوں میں آباد ہونے کی وجہ سے اب عالمی طور پر لفظ اقلیت متروک ہوتا جا رہا ہے۔
اس وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے کہ لفظ اقلیت کو اب ترک کردیا جائے خواہ وہ مسلمانوں کے حوالے سے ہو یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے حوالے سے، اس کی جگہ اس مذہب کے پیروکاروں کی مذہبی شناخت کا ہی ذکر کیا جائے۔ اجلاس میں پیر ابو الحسن محمد شاہ، ڈاکٹر عبدالغفور راشد، پیر خالد سلطان، علامہ محمد حسین اکبر، سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، پیر زادہ جنید امین، مفتی محمد زبیر، جسٹس ظفر اقبال، جسٹس الطاف ابراہیم، اللہ بخش کلیار، جلال الدین ایڈووکیٹ، فریدہ رحیم، بشپ سیموئیل عزرایاہ، فادر سلوسٹر جوزف، سہیل بابل، کرسٹوفر شرف، پرتیم داس، اسفند یار بھنڈارا، رمیش سنگھ، ڈاکٹر رمیش کمار وینکوانی، مہرداد اور طارق محمود غوری نے شرکت کی۔