واشنگٹن۔13ستمبر (اے پی پی):اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ افغانستان ایک بار پھر اہم دوراہے پر کھڑاہے،پاکستان کے لیے افغانستان میں امن کی بحالی ناگزیر ہے،
بین الاقوامی برادری ایک بار پھر افغانستان میں امن اور تعمیر نو کی ذمہ داری سے خود کو مبرا نہیں کر سکتی،افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے اہداف کے حصول کے لیے روڈ میپ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ممتاز عالمی جریدے ” نیوزویک "میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں پاکستانی مندوب نے کہا کہ افغانستان ایک بار پھر ایک اہم دوراہے پر کھڑاہے، چار دہائیوں سے جنگ اور تنازعات میں 10 لاکھ سے زائد افغان ہلاک اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے جبکہ معیشت، معاشرہ اور سیاست تباہ ہو چکی ہےتاہم عالمی برادری کو افغان عوام کی خواہش کے مطابق امن اور ترقی کے امکانات کو بحال کرنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے افغانستان میں امن کی بحالی ناگزیر ہے، پاکستان اور افغانستان جغرافیائی، تاریخ ، نسل ، عقیدے اور مشترکہ مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں 40 سال کی طویل جنگ نے پاکستان کی معیشت اور معاشرے پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بعد ، یہ پاکستان ہے جس نے نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ، ہمارے 80 ہزار لوگ دہشت گرد حملوں میں شہید ہوئے اور 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، افغانستان میں امن و استحکام اس کے لوگوں اور پاکستان کے لیے فائدہ مند ہوگا اور اس سے وسطی ایشیائی ممالک کے لیے آپس میں اور دنیا کے ساتھ رابطے اور تجارت کے امکانات کھل جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے بعد ، بین الاقوامی برادری ایک بار پھر افغانستان میں امن اور تعمیر نومیں مدد کی ذمہ داری سے خود کو مبرا نہیں کر سکتی۔ افغانستان میں سیاسی یا اقتصادی بدحالی مسلسل تنازعات اور انسانی بحران کا باعث بن سکتی ہے جس سے ہمسایہ ممالک، یورپ اور دیگر دنیا مہاجرین کی ایک بڑی تعداد سے متاثر ہو گی ۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے اہداف کے حصول کے لیے ایک روڈ میپ ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو تین عناصر پر مشتمل ہونا چاہیے۔ پہلا ، افغان عوام کی فوری انسانی امداد کو یقینی بنانا اور افغان معیشت کی بحالی میں مدد کرنا۔ دوسرا ، افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام کی حوصلہ افزائی جو اس کے پیچیدہ نسلی اور موجودہ سیاسی حقائق کی عکاس ہو۔
اور تیسرا ، افغانستان سے اس کے پڑوسیوں یا دوسرے ممالک میں دہشت گردی کے لاحق خطرات کو دور کرنے کیلئے جامع اور مربوط ایکشن پلان ترتیب دیا جائے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں طویل تنازعہ ، شدید خشک سالی اور کووڈ 19نے انتہائی خوفناک انسانی صورتحال پیدا کی ہے اورتقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افغان شہریوں کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔پاکستان اپنا کردار ادا کرے گا، ہم نے اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر افغانستان کو ضروری خوراک اور طبی اشیاء کی فراہمی کے لیے ایک "ہیومینٹرین ایئر بریج ” تشکیل دیا اور عالمی برادری کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا افغانستان میں انسانی صورتحال پر اعلیٰ سطحی وزارتی اجلاس بلانے کا فیصلہ انتہائی بروقت ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس اجلاس سے افغان عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر مالی امداد فراہم کرنے کے منصوبے کی حمایت میں اضافہ ہو گا جس میں پاکستان اور ایران میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین بھی شامل ہیں جن کی فلاح و بہبود عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے ہنگامی انسانی امداد کے پروگرام کے بعد افغانستان کی معاشی بحالی کے لیے بھی جامع منصوبہ بنایا جانا چاہیے،
افغان کرنسی کے ذخائر کو منجمد کرنا غیر نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ یہ افراط زر کو بڑھا دے گا ، خوراک کی قیمتوں ، مہاجرین کی تعداد، منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ میں اضافہ ہو گا اور مسلسل تنازعات و تشدد کی صورت میں نتائج سامنے آنے کا خدشہ ہو گا ۔افغانستان سے غیر ملکیوں کے انخلا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جو لوگ افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں ان کے انخلا کے حوالے سے خدشات قابل فہم ہیں،
پاکستان نے 15 اگست سے اب تک 11 ہزار سے زائد غیر ملکیوں اور افغانیوں کے انخلا میں مدد کی ہے تاہم کابل ایئرپورٹ پر پیدا ہونے والی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کے انخلا کو منظم انداز میں اور موجودہ افغان حکام کے ساتھ مشاورت سے ترتیب دیا جانا چاہیے۔نئے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری بالخصوص پڑوسی ممالک کو افغانستان میں جامع حکومت کے قیام اور سیاسی تصفیے کے لئے حمایت جاری رکھنی چاہیے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کے مستحکم ہونے کے ساتھ طالبان کا یہ عزم کہ افغان سرزمین کو کسی پڑوسی ملک یا دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا، کو تحریک طالبان پاکستان ، داعش، جماعت الاحرار، ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو بے اثر کرنے کے لیے عالمی برادری کی حمایت اور تعاون سے عملی اقدامات میں تبدیل کیا جائے۔امید ہےکی بین الاقوامی برادری افغانستان میں نئے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے متفقہ اپروچ اختیار کرے گی۔