افغانستان میں انسانی اوراقتصادی بحران کے فوری حل کی ضرورت ہےاقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کاسلامتی کونسل کےاجلاس میں اظہارخیال

افغانستان میں انسانی اور اقتصادی بحران کے فوری حل کی ضرورت ہے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کا سلامتی کونسل کے اجلاس میں اظہار خیال

اقوام متحدہ۔24جون (اے پی پی):پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں انسانی اور معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے بڑے پیمانے پر انسانی مشکلات، مزید افغان پناہ گزینوں ، اندرونی تنازعات کے دوبارہ سر اٹھانے اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی طرف سے خطرات میں اضافے جیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے گزشتہ روز طالبان کی پالیسیوں کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ ہم افغانستان کی حالیہ ہنگامہ خیز تاریخ کے ایک اور موڑ پر ہیں، ہمیں اپنے مقصد کو واضح کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارا بنیادی مقصد افغانستان میں امن اور استحکام کا حصول ہونا چاہیے جہاں بدھ کو آنے والے زلزلے نے تباہی مچا دی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرا خارجہ کے چیئرمین کی حیثیت سے پاکستان نے ا قوام متحدہ کی 15رکنی سلامتی کونسل کو ایک دستاویز بھیجی ہے جس میں امن کے راستے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو او آئی سی کی گزشتہ 2 وزارتی کانفرنسوں میں کئے گئے غور و فکر کانتیجہ ہے ۔او آئی سی کے ارکان نے افغانستان میں بحالی، تعمیر نو، تعلیم، مالی اور مادی امداد سمیت مستقل روابط پر زور دیا۔

پاکستانی مندوب نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان کی اپنے مالی وسائل تک رسائی معاشی تباہی کو روکنے کے لیے اہم ہوگی ۔ انہوں نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ مبنی بر ہدف پابندیاں انسانی امداد یا معاشی وسائل کی فراہمی میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، لڑکیوں کے تعلیم کے حق سے متعلق اپنے گزشتہ بیان کو دہرایا اور خواتین کے حقوق کے تحفظ پر افغان حکومت کے ساتھ بہترین طریقوں پر بات چیت کے لیے او آئی سی کے رکن ممالک، اسلامی سکالرز اور دیگر کے کردار کا اعادہ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی نے سلامتی کونسل سے ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا اور اعتماد کا اظہار کیا کہ دونوں عالمی ادارے اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن افغانستان میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ان عوامل پر غور کریں گے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ وہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے ساتھ کام کرنے کے لیے بے چینی سے منتظر ہیں اور افغانستان میں اقوام متحدہ کاامدادی مشن یکطرفہ پابندیوں کے اثرات اور افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرنے میں مدد کرے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خاص طور پر افغانستان سے ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بارے میں فکر مند ہے جن کی سرپرستی اور مالی معاونت ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے کی جاتی ہے ۔ ہم پاکستان کے خلاف اس طرح کے دہشت گرد حملوں کو ختم کرنے اور غلط معلومات کی مہم کو ختم کرنے کے لیے موثرطریقے تلاش کریں گے جو سلامتی کونسل کے ایک رکن ملک نے پاکستان کے خلاف شروع کی ہے جو دہشت گردی کی ریاستی سرپرست ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا ، چین، روس اور پاکستان پر مشتمل ” توسیع شدہ ٹرائیکا” دہشت گردی سے نمٹنے سمیت افغانستان میں امن کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ پاکستانی مندوب منیر اکرم نے امید ظاہر کی کہ ہم افغانستان میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے درست فیصلے کریں گے۔

انہوں نے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا کہ سلامتی کونسل نے اجلاس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا جن کی افغانستان میں حکومت ہے جبکہ سلامتی کونسل نے 3 افغان نمائندوں کو سنا جو صرف اپنی نمائندگی کرتے ہیں جن میں بی بی سی کی یلدہ حکیم، وائس ایمپلیفائیڈ کے کنسلٹنٹ یلدا رویان اور سابق صدر اشرف غنی کی طرف سے اقوام متحدہ میں تعینات افغانستان مشن کے سربراہ نصیر احمد فائق شامل ہیں کیونکہ عالمی ادارے نے ابھی تک طالبان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان سے مطالبات کیے جارہے ہیں لیکن انہیں سنا نہیں جا رہا جو اس کونسل کے افغانستان کی صورت حال پر غور کرنے کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ اس موقع پر سلامتی کونسل کے متعدد اراکین نے طالبان حکومت کے ساتھ روابط جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صرف بات چیت کے ذریعے ہی افغانستان میں درپیش چیلنجز کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ .