افغانستان کے بارے علاقائی کانفرنس ، افغانستان میں بالواسطہ طور پر دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرنے کے بھارتی عزائم کو حاصل کرنے میں ناکامی رہی

اسلام آباد۔11نومبر (اے پی پی):نئی دہلی میں ہونے والی افغانستان کے بارے علاقائی کانفرنس ، افغانستان میں بالواسطہ طور پر دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرنے کے بھارتی مقصد کو حاصل کرنے میں ناکامی رہی جیسا کہ روس کی جانب سے جاری کردہ الگ اعلامیہ میں میزبان ملک کے نشان دہی کردہ شعبوں کو اجاگر نہیں کیا گیا۔ روس اور بھارت کی طرف سے بدھ کو افغانستان کے بارے میں نئی دہلی علاقائی سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری کئے گئے دو مختلف بیانات میں بعض مسائل پر ان کے موقف میں اختلاف ظاہر ہوتا ہے۔

سربراہی اجلاس میں ہندوستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کی قومی سلامتی کے مشیروں اور سیکرٹریز نے شرکت کی۔ اجلاس میں افغانستان، چین یا پاکستان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ دہلی اعلامیہ کے مطابق افغانستان میں دہشت گردی، بنیاد پرستی اور منشیات کی سمگلنگ سے پیدا ہونے والے خطرات پر توجہ مرکوز کی گئی۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال ایک ڈوزیئر جاری کیا تھا جس میں خاص طور پر پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کے لئے افغان این ڈی ایس کے ساتھ مل کر بھارتی فنڈز سے 66 دہشت گرد تربیتی کیمپوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اجلاس میں زیر بحث12 نکات میں سے چار کا تعلق افغانستان میں انتہاء پسندی، دہشت گردی، بنیاد پرستی اور منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام سے تھا جبکہ انسانی بحران ترجیح کے لحاظ سے آخر میں تھا تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر روس نے اپنا بیان الگ جاری کیا جس میں کم از کم پانچ شعبوں پر مختلف نکتہ نظر بیان کیا گیا۔

دہشت گردی کے مسئلے پر دہلی اعلامیہ میںاس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ افغانستان کبھی بھی عالمی دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بنے گا۔ تاہم روس کے بیان نے اس نقطہ کو چھوڑ دیا۔ اسی طرح دہلی اعلامیہ میں اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا کہ خواتین، بچوں اور اقلیتی برادریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ روس کے بیان میں خواتین، بچوں اور قومی اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار پھر بنیادی حقوق اور خلاف ورزی نہیں کے الفاظ کو چھوڑ دیا گیا۔

دہلی اعلامیہ میں خطے میں بنیاد پرستی، انتہا پسندی، علیحدگی پسندی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف اجتماعی تعاون پر زور دیا گیا،تاہم روس کے بیان میں ان مسائل پر اجتماعی تعاون کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ ایک اور مثال میں، دہلی اعلامیہ میں افغانستان سے متعلق اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوںکا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کا مرکزی کردار ہے اور افغانستان میں اس کی مسلسل موجودگی کو تحفظ دیا جائے ۔

روس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ افغانستان میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور ملک میں اقوام متحدہ کی مستقل موجودگی کو برقرار رکھا جا ئے ۔ دہلی اعلامیہ میں ایک اور نکتہ جس میں 2022 میں اگلے علاقائی سلامتی مذاکرات کے انعقاد کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے ، تاہم روسی بیان میں ایسی کسی تاریخ کا ذکر نہیں کیا گیا۔

اس کے برعکس روس نے کہا کہ شرکا نے افغان مسائل پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ سفارتی ماہرین کا خیال ہے کہ عام طور پر ایسے اجلاسوں کے اختتام پر دو مختلف بیانات جاری نہیں کیے جاتے جب تک کہ شرکا میں سے کوئی ایک مخصوص موقف نہ رکھتا ہو اور وہ اپنا موقف تحریری طور پر پیش کرنا چاہتا ہے ، واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ حتمی معاہدے پر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔\395