اسلام آباد۔15نومبر (اے پی پی):وسطی ایشیائی ممالک کو افغانستان کے راستے پاکستان کی برآمدات گزشتہ 11 ماہ میں 118 ملین ڈالر سے بڑھ کر 202 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں،تجارت میں موجودہ رکاوٹوں اور عدم توازن کے باوجود دو طرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پاک افغان تجارت کی حقیقی صلاحیت کو آگے بڑھانے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
اس بات کا اظہار ڈائریکٹر آمنہ خان نے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی )میں ”پاک افغان اقتصادی تعلقات: نئے امکانات کا آغاز“کے موضوع پر ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی ) میں سنٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ کے زیر اہتمام ویبینار کے مقررین میں افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان، اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کے ناظم الامور سردار احمد شکیب، سابق وزیر مملکت اور چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ ہارون شریف، عدنان جلیل، ہاشم پشتون اور دیگر شامل تھے۔
ویبنار کی نظامت سنٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ (کیمیا) کی ڈائریکٹر آمنہ خان نے کی۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری، اور چیئرمین بورڈ آف گورنرز سابق سفیر خالد محمود نے بھی ویبنار میں شرکت کی۔
اپنے تعارفی کلمات میں آمنہ خان نے کہا کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا جغرافیائی سیاست سے جیو اکنامکس کی طرف منتقل ہو رہی ہے، علاقائی اقتصادی انضمام اور علاقائی روابط کو انتہائی اہمیت حاصل ہوگئی ہے،افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات منفرد ہیں، دونوں ممالک دو طرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے تجارت اور اقتصادی مواقع کے حوالے سے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں،
اگست 2021 سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان کو افغان برآمدات 550 ملین سے 700 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، اس کی وجہ پاکستان کی طرف سے دوطرفہ تعاون اور تجارت سے متعلق مراعات، افغان کوئلے کی خریداری میں اضافہ اور طورخم میں فعال انٹیگریٹڈ ٹرانزٹ ٹریڈ منیجمنٹ سسٹم کا قیام قرار دیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ افغانستان کو پاکستانی برآمدات میں کمی ہوئی ہے لیکن افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ممالک کو اس کی برآمدات گزشتہ 11 ماہ میں 118 ملین ڈالر سے بڑھ کر 202 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تجارت میں موجودہ رکاوٹوں اور عدم توازن کے باوجود دو طرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی حقیقی صلاحیت کو آگے بڑھانے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان مشترکہ اقتصادی روابط پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اقتصادی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔ اس موقع پر سفیر منصور احمد خان نے کہا کہ یہ پورے خطے کے لیے ایک بہت اہم موضوع ہے کیونکہ مشترکہ منڈیوں، مشترکہ ثقافت اور دیگر عوامل کے ساتھ اقتصادی صلاحیت بے پناہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں امن، استحکام اور ترقی نہ ہو سکی اور 15 اگست 2021 کے بعد امن ہے لیکن علاقائی کشیدگی برقرار ہے، سرحد پار رابطہ بھی ایک رکاوٹ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تجارت اور ٹرانزٹ کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجودہ حکومت کو تسلیم نہ کرنا رکاوٹ بن سکتا ہے، اقتصادی پابندیوں سے افغانستان کے عوام کو نقصان پہنچ رہا ہے، پاک افغان دو طرفہ مذاکرات کا باقاعدگی سے انعقاد ہونا چاہیے، گوادر تا قندھار اور طورخم تا جلال آباد کو ترقی دینا ہوگی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان پاکستان ترجیحی تجارتی معاہدے کو مزید موثر بنانے کے لیے حتمی شکل دی جائے۔ سردار احمد شکیب نے کہا کہ افغانستان کی نئی حکومت نے گزشتہ سال کے دوران تجارت، ٹرانزٹ اور علاقائی رابطوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی ہے، پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا پہلا تجارتی پارٹنر ہے اور افغانستان پاکستان کی دوسری بڑی برآمدی منڈی ہے، افغانستان کی نئی حکومت نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران اس سلسلے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان نے 22 تجارتی سہولیات پر اتفاق کیا ہے جن میں افغانستان، ازبکستان اور پاکستان کے درمیان دو مشترکہ اقتصادی منصوبوں پر مذاکرات شامل ہیں۔ سردار احمد شکیب نے کہا کہ ٹرانزٹ پوائنٹس پر موجودہ مسائل کے حل کے لیے تعاون کے طریقہ کار اور گاڑیوں کی نقل و حرکت کے بارے میں معلوماتی نظام پر بھی پاکستان کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، حکومت پاکستان کے ساتھ فضائی راہداری کی بحالی اور افغانستان کے پائن نٹس کی برآمد کے بارے میں بھی بات چیت جاری ہے۔
ہارون شریف نے کنیکٹیویٹی سے متعلق راہداریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف اس وقت کام کرتے ہیں جب بنیادی ڈھانچہ موجود ہو اور یہ نجی شعبے کو راغب کرتا ہے، ہمیں ایسے منصوبوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو شراکت دار ممالک خود کر سکیں، لینڈ پورٹ اتھارٹی کے قیام جیسے اقدامات ضروری ہیں جو تجارتی سہولت میں مدد کر کتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں میں ساختی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور مستقبل مسابقتی پیداوار میں مضمر ہے۔ مزمل شنواری نے اپنے ریمارکس میں افغانستان اور پاکستان کو باہمی تجارت کے لیے نئی راہیں تلاش کرنی چاہئیں، افغانستان میں جاری صورتحال کے باعث ملک کے اندر مصنوعات کی طلب بہت کم ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ہاشم پشتون نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی اقتصادی زونزکے قیام اور موجودہ تجارتی معاہدوں کا جائزہ یا انہیں بہتر بنانا سرحد کے دونوں طرف کی معیشتوں کو فروغ دینے کے لیے بہت اہم ہوگا۔
اپنے اختتامی کلمات میں سابق سفیر خالد محمود نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان متعدد معاہدے ہیں تاہم زمینی سطح پر ان کی عکاسی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاست کاری سے گریز کرنا چاہیے اور اعتماد کی کمی پر کام کرنا چاہیے، جو کہ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔