اقوام متحدہ ، جنرل اسمبلی نے طالبان سے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری ،دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کے مطالبات پر مبنی قرار داد کی بھاری اکثریت سے منظوری دے دی

69

اقوام متحدہ۔8جولائی (اے پی پی):اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے طالبان سے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے اور دہشت گردی کے خلاف اور انسانی بحران کے خاتمے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کے مطالبات پر مبنی قرار داد کی بھاری اکثریت سے منظوری دے دی۔ جنرل اسمبلی میں قرار داد پر رائے شماری کے دوران قرار داد کی حمایت میں پاکستان کے ووٹ سمیت 116 ووٹ پڑے، 12 رکن ممالک غیر حاضر رہے اور اور 2 ممالک اسرائیل اور امریکا نے قرار داد کی مخالفت میں ووٹ دیا ، بھارت نے قرار داد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

قرارداد میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے تقریباً چار سال بعد افغانستان کو درپیش کثیر جہتی بحرانوں پر روشنی ڈالی گئی جس میں افغان عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی حمایت اور امن و استحکام کے لیے نئے سرے سے زور دینے کا مطالبہ کیا گیا۔قرارداد کی شرائط کے تحت 193 رکنی اسمبلی نے مسلسل تشدد اور القاعدہ، اسلامک سٹیٹ ان عراق اینڈ دی لیوانت (آئی ایس آئی ایل؍داعش) جیسے دہشت گرد گروپوں اور ان کی ذیلی تنظیموں داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی پر اپنی سنگین تشویش کا اعادہ اور مطالبہ کیا کہ افغانستان کو دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بننے کی اجازت نہ دی جائے۔

قرارداد میں افغانستان میں انسانی، سیاسی اور ترقیاتی کردار ادا کرنے والوں کے درمیان مربوط نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا گیا اور وہاں تمام خواتین اور لڑکیوں پر سنگین، بگڑتے ہوئے، وسیع اور منظم جبر پر سخت خدشات کا اظہار کرتے ہوئے طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایسی پالیسیوں کو تیزی سے تبدیل کریں جو خواتین کو تعلیم، ملازمت اور عوامی زندگی سے خارج کرتی ہیں۔ اس موقع پر پاکستان نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان کو ان کے وعدوں پر قائم رکھنے کے لیے یک آواز ہو کر بات کرے جن میں کسی بھی ملک کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہ دینا اور دہشت گردی سے پاک مستحکم اور خوشحال افغانستان کے مشترکہ مقصد کو یقینی بنانا شامل ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورت حال پر ایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے طالبان سے انسانی حقوق کے احترا م کو یقینی بنانے ، بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے ، دہشت گردی اور انسانی بحران کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی )کے دہشت گردوں کی جانب سے افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کی کوششیں جاری ہیں ،ہمارے پاس ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں جیسے کہ بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) اور اس کی مجید بریگیڈ کے درمیان تعاون (جس کا مقصد پاکستان میں سٹریٹجک انفراسٹرکچر اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں خلل ڈالنا ہے)کے قابل اعتبار ثبوت بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چار دہائیوں بعد افغانستان میں لڑائی ختم ہونے کے باوجود مایوسی اور خوف کا عنصر موجود ہے،افغان عوام بدستور مصائب کا شکار ہیں ، پابندیاں، بینکنگ کا غیر فعال نظام، لیکویڈیٹی کا بحران، غربت، انسانی امداد میں کمی، دہشت گردی، منشیات اور انسانی حقوق کے خدشات نے ان کی حالت زار کو بد تر کر دیا ہے ،افسوس کی بات یہ ہے کہ دہشت گرد اور اکثر پراکسیز افغان سرزمین دوسرے ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہتے ہیں، اس صورتحال میں فغانستان کو اس کے حال پر نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔

ہم اس حوالے سے دوحہ عمل اور ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ منظم روابط کے لیے اقوام متحدہ کی قیادت میں کی جانے والی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں،افغانستان کے حوالے سے ایک جامع اور جامع فریم ورک کی فوری ضرورت ہے جو متوازن انداز میں تمام مسائل پر یکساں توجہ دینے کے ساتھ علاقائی خدشات کو بھی دور کرے ۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ افغانستان میں انسانی تباہی کو روکنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے،افغانستان کے حوالے سے 2025 کا انسانی ضروریات اور رسپانس پلان شدید طور پر ناکافی ہے جس میں اب تک مطلوبہ 2.42 بلین ڈالر کا صرف 15.7 فیصد حاصل کیا جا سکا ۔

پاکستانی مندوب نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اس منصوبے کو مطلوبہ فنڈز فراہم کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کئی دہائیوں سے لاکھوں افغانوں کی میزبانی کی ہے، اگست 2021 سے مزید 10 لاکھ غیر دستاویزی افراد ملک میں داخل ہوئے جس سے دیگر مسائل کے علاوہ امن و امان کے خدشات بھی پیدا ہوئے،ہماری نظر میں بین الاقوامی برادری کو اس بوجھ کو زیادہ منصفانہ طور پر بانٹنا چاہیے۔ مندوب نے افغان معیشت اور بینکنگ کے نظام کو بحال کرنے پر بھی زور دیا جس میں امریکا میں ضبط کئے گئے افغانستان کے مالیاتی اثاثوں کو غیر منجمد کرنا اور تجارت اور سرمایہ کاری کو ممکن بنانا شامل ہے۔اس حوالے سے اپنے کردار کے طورپر پاکستان پاکستان تجارت کو بڑھانے اور علاقائی رابطوں کے اقدامات جیسے کہ TAPI، CASA-1000، ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کی افغانستان تک توسیع کے لئے پرعزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک ایسی اتھارٹی ہے جو افغانستان کی سرزمین کو کنٹرول کرتی ہے جس کے لیے کوئی قابل اعتبار چیلنج نہیں ، اسے ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو افغانستان میں ایک اور تنازعے کو بھڑکا سکتے ہیں جس سے پورا خطہ متاثر ہو سکتا ہے، ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ خرابی کرنے والوں کو افغانستان کے اندر یا باہر جہاں بھی ہوں ، عدم استحکام اور دہشت گردی کو ہوا دینے سے روکا جائے، افغانستان سے دہشت گردی اس کے پڑوسیوں خاص طور پر پاکستان کے لئے سنگین خطرہ ہے۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ داعش خراسان افغان حکام کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دیگر دہشت گرد تنظیمیں بشمول القاعدہ، الفتنۃالخوارج ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسند گروپ افغانستان سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ تقریباً 6,000 جنگجوؤں کے ساتھ ٹی ٹی پی اقوام متحدہ کا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے جو افغان سرزمین سے کام کر رہا ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی کو براہ راست خطرہ ہے،افغانستان کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننا چاہیے ۔

پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ افغانستان میں بین الاقوامی افواج کی طرف سے اصل میں چھوڑے گئے جدید ہتھیاروں، گولہ بارود اور جدید ترین آلات کا ایک بڑا ذخیرہ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ضبط کر لیا ہے، یہ ہتھیار پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے جدید ترین حملوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں،یہ واقعات ہمیں درپیش خطرے کے پیمانے اور سنگینی کو واضح کرتے ہیں ۔ پاکستانی مندوب نے واضح کیا کہ پاکستان اپنےشہریوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرتا رہے گا،پاکستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں خاص طور پر خواتین کے حقوق اور زیادہ سیاسی اور سماجی شمولیت کو پورا کرنے کے لیےافغان حکام سے بین الاقوامی برادری کی توقعات کا مکمل اشتراک کرتا ہے ،ہم خواتین اور لڑکیوں پر مسلسل پابندیوں جو بین الاقوامی اصولوں اور اسلامی روایات سے متصادم ہیں، کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان نوجوانوں کے لیے تعلیمی سرگرمیوں اور مواقع کی حمایت بھی جاری رکھے ہوئے ہے، اس وقت 4,500 افغان طلبہ ان مواقع سے مستفید ہو رہے ہیں جن میں سے ایک تہائی لڑکیاں ہیں۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ افغانستا ن میں جو چیز طاقت کے ذریعے حاصل نہیں کی جا سکی وہ تنہائی، پابندیوں یا مالی جبر کے ذریعے حاصل نہیں کی جا سکے گی،اس کے برعکس بڑھتی ہوئی غربت اور بھوک نئے سرے سے تنازعات اور تشدد کو جنم دے سکتے ہیں اور پناہ گزینوں اور بے گھر ہونے والوں کا ایک نیا انخلا پیدا کر سکتا ہے جسے افغانستان کا کوئی بھی پڑوسی ایڈجسٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔