امیر ممالک کی طرف سے پیدا ہونے والے اخراج کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہ ہو رہی ہے،مہر کاشف یونس

153

اسلام آباد۔22ستمبر (اے پی پی):پاکستان گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے جو اب تک کی بدترین موسمیاتی آفت کا سامنا کر رہا ہے اور امیر ممالک کی طرف سے پیدا ہونے والے اخراج کی وجہ سے اس کی معیشت تباہ ہو رہی ہے،اس تباہی کے ذمہ دار ممالک کو موسمیاتی نقصانات کے ازالے کیلئے ان ملکوں کیلئے فنڈ مختص کرنا چاہیے جو اس تباہی کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر مہر کاشف یونس نے جمعرات کو یہاں ”پاکستان اینڈ لیڈنگ ایمیٹرز رسپانس“ کے موضوع پر ایک سیمینار سے کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2022 دنیا بھر میں موسمیاتی تباہی کا سال رہا ہے جس میں خشک سالی، سیلاب، بڑی آگ، سمندری اور دیگر طوفان شامل ہیں۔

پاکستان میں آنے والے سیلاب اور اس سے بڑے پیمانے پر تباہی نے پوری دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں اور یہ عالمی بیداری کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ پاکستان کا ایک تہائی حصہ ڈوب چکا ہے، سینکڑوں دیہات تباہ ہو گئے ہیں، جس سے لاکھوں لوگ بےروزگار اور 33 ملین بے گھر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں موسمیاتی انصاف کو عالمی ایجنڈے میں اہمیت دلانے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن دنیا کے زیادہ اخراج کرنے والے ممالک اب بھی بیدار نہیں ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ یہ بات عالمی سطح پر سب کو معلوم ہے کہ دنیا کے امیر ممالک آلودگی پھیلانے والی وہ فیکٹریاں ہیں جنہوں نے پاکستان کو ان طویل مدتی موسمی حالات سے محروم کر دیا ہے جن پر اس نے اپنی معیشت، گھروں، زرعی فارمز اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے کے لیے عالمی سطح پر ابھی تک موسمیاتی شماری کا کوئی طریق کار موجود نہیں ہے اس لئے حکومتوں کو مل کر کام کرنا چاہیے اور اس تباہی کے ذمہ دار ممالک کو موسمیاتی نقصانات کے ازالے کیلئے ان ملکوں کیلئے فنڈ مختص کرنا چاہیے جو اس تباہی کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے نقصانات 30 بلین ڈالر سے زیادہ ہیں اور آنے والے مہینوں میں یہاں بھوک، بیماری، غربت اور دیگر سماجی پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر ممالک کو اس نقصان کا بوجھ برداشت کرنا چاہیے جو ایسے ممالک بھگت رہے ہیں جو اس تباہی کے ذمہ دار نہیں مگر نوآبادیاتی نقصان ہو، غلامی کے اثرات ہوں یا آب و ہوا کو پہنچنے والے نقصانات ، اکثر امیر اور طاقتور ممالک اپنی ذمہ داریوں سے انکاری ہیں۔ سیمینار کے سوال جواب کے سیشن میں مہر کاشف یونس نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا امیر ممالک کے اس کردار کو فراموش نہیں کر سکتی جو ترقی یافتہ ممالک نے دنیا بھر میں موسمیاتی آفات پیدا کرنے میں ادا کیا ہے۔

جیسے جیسے موسمیاتی نقصانات بڑھ رہے ہیں اسی طرح عالمی سطح پر ماحولیاتی انصاف کے تقاضے بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کو اپنے توانائی کے نظام کو ڈی کاربنائز کرنا چاہیے اور اپنی زمین اور ماحولیاتی نظام کو ذمہ داری اور پائیدار طریقے سے منظم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کیا امیر ممالک کو ترقی پذیر خصوصاً چھوٹے جزائر والی ریاستوں کے نقصانات کا احساس ہے اور کیا زیادہ اخراج کرنے والے ممالک کو ترقی پذیر ممالک کی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششوں میں معاونت کی ضرورت نہیں ہے اور کیا انہیں احساس ہے کہ ایسا کرنے میں ناکامی سے دنیا بھر کو کیا خطرات لاحق ہیں۔