انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ’قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل پانے والا آئین پاکستان ہی بنیادی بیانیہ ہے، وفاقی وزیر شہریار آفریدی

کوئٹہ۔14اکتوبر (اے پی پی):وفاقی وزیربرائے سفیران و چیرمین کشمیرکمیٹی شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ’قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل پانے والا آئین پاکستان ہی بنیادی بیانیہ ہے اس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہم پاکستانی و پیغام پاکستان بی آر ایس پی کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔تقریب میں صوبائی اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈوکیٹ،چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو،ڈپٹی سپیکر بلوچستان کہدہ بابر،چیف ایگزیکٹو بی آر ایس پی نادر گل بڑیچ،وہ دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی وفاقی وزیر نے کہا کہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے قومی یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا دہشت گردی کے خلاف علما کا متفقہ بیانیہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم ملک سے دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خاتمے کیلیے پرعزم ہے۔وفاقی وزیر نے تابناک مستقبل کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت پرزور دیا۔انہوں نے کہا کہ مختلف مکاتب فکر کے علمااور وفاق المدارس نے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے جو فتویٰ جاری کیا ہے وہ درست سمت میں ایک مثبت پیش رفت ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام امن محبت اور رواداری کا دین ہے یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد ضروری ہے کہ قوم کے دیگر طبقات کے نقطہ نظر کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ہر طبقہ اس کے فروغ میں کردار ادا کرے وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھاکہ پاکستان قدرت کا وہ عظیم تحفہ ہے جس پر اللہ پاک کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم سے کبھی بھی اس نعمت کا ویساشکر ادا ہو ہی نہیں سکا جیسا ہونا چاہیے تھا۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے ہمارے حکمرانوں نے جانے انجانے میں دو قومی نظریہ کی اہمیت کو نظر انداز کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ ویسے تو ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ آج نریندر موذی حکومت نے روا رکھا ہوا ہے اسے دیکھ کے دو قومی نظریہ کا فلسفہ برصغیر پاک و ہند میں رہنے والے سبھی مسلمانوں کو خوب سمجھ آجانا چاہیے۔انہو ں نے کہاکہ پاکستانی معیشت کو استحکام نصیب ہو اورپاکستان ترقی کی طرف گامزن ہونے لگے اور پھرہمارے بچوں کا مستقبل بھی روشن ہو جائے اس کے لئے ملک میں سب ادارے اور محکمے اپنے فرائض اس انداز میں ادا کریں کہ لوگ اپنے معاملات میں الجھنوں سے بچ سکیں۔اور عام پاکستانی تناو کے ماحول سے نکل کے زندگی کو خوشگوار انداز میں گزارنے کی کوشش کرے۔میرا خیال ہے کہ بڑے مقصد کے حصول کے لیے ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزیں بہتر کرنا ہوں گی۔سب سے پہلے ہر شہری کو یہ طے کرنا ہوگا کہ اس کے قول و فعل سے دوسرے شہریوں کی حق تلفی ہو اور نہ ہی وہ کسی طور دل آزاری کا سبب بنیں گے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کو نہیں سمجھ لیتے,نہ ہم اس ملک کی قدر کر پائیں گے اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں بہتری آنا شروع ہو گئی۔