انڈیا میں لاک ڈائون سے ایکسپورٹ کی سپلائی چین میں تعطل پیدا ہوا تو بیرون ملک خریداروں نے پاکستان کی طرف رجوع کرلیا،موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات 4.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں، بی بی سی رپورٹ

95

اسلام آباد۔15دسمبر (اے پی پی):انڈیا میں لاک ڈائون کی وجہ سے ایکسپورٹ کی سپلائی چین میں تعطل پیدا ہوا تو بیرون ملک خریداروں نے پاکستان کی طرف رجوع کرلیا۔موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں ملک کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 4.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ ٹیکسٹائل شعبے کی مصنوعات کی برآمد میں گذشتہ مالی سال کے پہلے چار مہینوں کے مقابلے میں چار فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حکومت اور ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ شعبہ اس وقت اپنی پوری پیداواری استعداد پر کام کر رہا ہے جو ملک کی برآمدات کے شعبے میں اضافے کے ساتھ روزگار کی فراہمی کے لیے بھی مثبت پیش رفت ہے۔پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافے سے مجموعی برآمدات میں ہونے والے اضافے سے ملک کے تجارتی خسارے کو بھی کم کرنے میں مدد ملی ہے ،پاکستان کے ٹیکسٹائل کے شعبے میں پیداواری صلاحیت کا پوری استعداد پر چلنے اور اس کی مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کو اس شعبے سے وابستہ افراد کورونا کے باعث نافذ پابندیوں میں نرمی اور صنعتی شعبے کے لیے حکومتی ریلیف اقدامات کی وجہ سے مصنوعات کی مانگ میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ پارلیمانی سیکریٹری برائے تجارت، صنعت و پیداوار عالیہ حمزہ ملک نے ٹیکسٹائل کے شعبے کی اچھی کارکردگی میں تسلسل کی امید کا اظہار کیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی پالیسیاں ہیں جو اس شعبے کو پوری طرح مدد فراہم کر رہی ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس شعبے کی کارکردگی میں آنے والے دنوں میں مزید بہتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نا صرف ٹیکسٹائل کا شعبہ اپنی پوری استعداد پر چل رہا ہے بلکہ پاور لومز بھی اپنی پوری گنجائش پر کام کر رہی ہیں۔عالیہ ملک نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اس شعبے کے لیے ایسی پالیسیاں وضع کی ہیں کہ جس کے ذریعے اسے پوری طرح مدد فراہم کی جا سکے کیونکہ اس شعبے کا ملکی معیشت اور روزگار کی فراہمی میں کلیدی کردار ہے۔انھوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل شعبے سے وابستہ صنعت کاروں کے مطابق ان کے پاس نا صرف دسمبر کے مہینے کے ایکسپورٹ آرڈرز موجود ہیں بلکہ بعض نے جون تک کے ایکسپورٹ آرڈرز کے ملنے کی بھی معلومات کے حوالے سے آگاہ کیا ہے ۔عالیہ ملک نے کہا کہ حکومت کاٹن کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کرنے پر کا م کر رہی ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ خرم مختار جو یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرتے ہیں کہا ہے کہ حالیہ مہینوں میں ان کے کاروبار میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور انھیں بیرون ملک سے زیادہ ایکسپورٹ آرڈرز موصول ہوئے ہیں۔خرم مختار نے مزید بتایا کہ انھیں ملنے والے زیادہ ایکسپورٹ آرڈرز میں جہاں ان کی مصنوعات کی مسابقتی قیمت کا کردار رہا تو وہی کورونا کی وبا کی وجہ سے انڈیا میں لاک ڈائون سے بھی انھیں فائدہ ہوا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انڈیا میں لاک ڈائون کی وجہ سے ایکسپورٹ کی سپلائی چین میں تعطل پیدا ہوا تو ان کے بیرون ملک خریداروں نے پاکستان کی طرف رجوع کیا اور ان کی کمپنی کو بھی گذشتہ کچھ مہینوں میں زیادہ آرڈرز ملے۔ جن میں زیادہ تر ہوم ٹیکسٹائل، ڈینم اور اپیرل کی مصنوعات کے آرڈرز تھے ۔ ٹیکسٹائل مل کے مالک آصف انعام نے مطابق یہ شعبہ اس وقت اپنی پوری پیداواری استعداد پر کام کر رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ اسے ملنے والے آرڈرز ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے دی جانے والی مراعات بھی اس کی پیداوار کو بڑھانے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ اس شعبے کی اچھی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ حکومت کے اختتام پر پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کا دنیا بھر میں اس کی برآمدات میں حصہ ایک اعشاریہ آٹھ فیصد ہو گیا تھا تاہم اب یہ حصہ دو اعشاریہ چار فیصد تک بڑھ گیا ہے جو اس شعبے کی کارکردگی کے بارے میں ایک بڑا ثبوت ہے۔آصف نے بتایا کہ انڈیا میں سخت لاک ڈاون نے بھی پاکستان کے اس شعبے کو فائدہ پہنچایا اور وہاں سے اس کے ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل کے نہ ہونے کے خدشے نے بین الاقوامی خریداروں کو پاکستان کی جانب متوجہ کیا۔کراچی چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر اور ٹیکسٹائل ملر زبیر موتی والا نے پاکستان کی ٹیکسٹائل کے شعبے کی کارکردگی کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بڑی وجہ یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں پیدا ہونے والا انوینٹری خلا تھا جسے پاکستان کے ٹیکسٹائل کے شعبے نے پر کیا۔انھوں نے اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یورپ اور امریکہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاو¿ن نے ان کی بیرون ملک سے مصنوعات منگوانے کو بھی شدید متاثر کیا۔ لاک ڈاو¿ن کے دوران ذخیرہ شدہ مال ختم ہو گیا تو لاک ڈاون میں نرمی کے بعد انھیں فوری مال کی ضرورت پڑی تو انھوں نے پاکستان کی طرف رجوع کیا۔موتی والا نے بتایا کہ انڈیا میں لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے وہاں کا ٹیکسٹائل کا شعبہ امریکہ اور یورپ سے آنے والے بڑے ایکسپورٹ آرڈرز کو پورا کرنے سے قاصر رہا جس کا فائدہ پاکستان کو پہنچا۔زبیر موتی والا نے مستقبل میں اس شعبے کی کارکردگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہمارا یہ شبعہ کس حد تک مسابقتی رہتا ہے اور اس کی مصنوعات کو دنیا کی منڈیوں میں مسابقتی برتری ملتی ہے۔واضح رہے کہ ٹیکسٹائل شعبے کا ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں آٹھ فیصد سے زائد حصہ ہے اور ملک کے مجموعی برآمدی شعبے میں اس کی مصنوعات کا حصہ تقریباً ساٹھ فیصد ہے۔ یہ پاکستان کا مینوفیکچرنگ کا سب سے بڑا شعبہ ہے جو صنعتی شعبے میں کام کرنے والی تقریباً 40 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے۔بورڈ آف انوسٹمنٹ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ایشیا میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ اس وقت پاکستان میں چار سو سے زائد ٹیکسٹائل فیکٹریاں کام کر رہی ہیں جب کہ اس شعبے کے لیے سب سے اہم خام مال یعنی کاٹن کی ملک میں فراہمی باآسانی دستیاب ہے۔