اپوزیشن فوج اور حکومت پر اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری ڈال کر انتشار پھیلانے کی بجائے مثبت رویہ اپنائے،  وفاقی وزیراحسن اقبال کا پریس کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد۔16جون (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ اپوزیشن فوج اور حکومت پر اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری ڈال کر انتشار پھیلانے کی بجائے مثبت رویہ اپنائے اور نیشنل چار ٹر آف اکانومی کا حصہ بنے۔

جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم حکومت میں تھے تو اس وقت آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا، ہم نے اس کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا ، آج معیشت کی بحالی کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنانے کی ضرورت ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن پنجاب میں اسپیکر کے عہدے کو جبکہ وفاق میں صدر مملکت کے عہدے کو بے توقیر کررہی ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آئین وقانون پر یقین نہیں رکھتے ،جو آئین سے ٹکراتا ہے وہ خود پاش پاش ہوجاتا ہے ، آئین پاکستان کی پشت کے پیچھے 22 کروڑ عوام اور قومی ادارے ہیں ، جو اس سے ٹکرائے گا وہ اپنا سر پھوڑے گا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈکٹیٹرز بھی آئین سے ٹکرائے لیکن وہ خود تباہ ہوگئے ۔

احسن اقبال نے کہاکہ حکومت دل پر پتھر رکھ کر پاکستان کے مفاد میں فیصلے کررہی ہے ،پاکستان میں جو مہنگائی اور غربت ہے آئی ایم ایف کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ایسی ریفارمزسے پاکستان جیسی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ،ہمارے نئے اقدامات سے کرنسی اور سرمایہ کاروں میں اعتماد بحال ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ جو عالمی اداروں سے معاہدے کیے گئے اس پر قائم رہا جائے، جب ہم اپوزیشن میں تھے ہم نے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنا قلم آئی ایم ایف کے پاس رکھ دیا ہے ۔عمران خان ملک تباہ کر کے خود بنی گالہ جا کر بیٹھ گئے ہیں ۔

عمران خان حکومت پر فائر کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں ۔انہوں نے کہا کہ جب انٹرنیشنل مارکٹ میں قیمتیں کم ہوں گی تو پاکستان میں بھی پٹرول سستا ہوجائے گا ۔حکومت کو مجبوراً نہایت ہی بوجھل دل کے ساتھ فیول پرائس میں ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں یوکرین ، روس جنگ کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں ،ہم نے پاکستان میں تیل پر ٹیکس اور ڈیوٹی ختم کر دی ہے ، پاکستان میں اس سے پہلے یہ گنجائش ہوتی تھی، پہلے حکومت پٹرول مہنگا بیچتی تھی ، اب عالمی سطح پر قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے ، حکومت نے ٹیکس ختم کر دیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ معیشت کے حوالے سے ہمارے ساتھ مباحثہ کر سکتے ہیں ۔ اپنی وزارت کے حوالے سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ معیشت کا پہیہ ترقیاتی بجٹ سے چلتا ہے ۔ جب معیشت میں ترقیاتی بجٹ کم ہو تو معیشت سست روی کا شکار ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2018میں جب ہم نے حکومت چھوڑی تھی تو اس وقت ملکی دفاع اور ترقیاتی بجٹ ، 1،1ہزار ارب روپے تھا ۔ آج جب میں چار سال بعد دوبارہ اس وزارت میں آیا ہوں تو اب ترقیاتی بجٹ ساڑھے پانچ سو ارب ٹارگٹ رکھا گیا ہے ۔ترقیاتی بجٹ چار سال پہلے سے پچاس فیصد حصے پر ہے ۔

یکم اپریل کو وزارت خزانہ نے صاف بتا دیا تھا کہ اپریل ، مئی، جون کے ترقیاتی بجٹ کیلئے وزارت خزانہ قسط جاری نہیں کرسکتی ۔پہلے پاکستان کی تاریخ میں ایسا مقام نہیں آیا کہ اس طرح فنڈز جاری نہ کیے جاسکیں ۔ یہی حقائق ہی کافی ہیں کہ سابقہ حکومت معیشت کہاں چھوڑ کر گئی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ہم حفیظ شیخ ، شوکت ترین کو نہیں جانتے ہم پاکستان کے وزرائے خزانہ کو جانتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ آج پاکستان جہاں کھڑا ہے وہ عمران خان کی وجہ سے ہے ۔ عمران خان نے لکھ کر دیا کہ سبسڈیز ختم کر کے پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سابق وزراء کو معلوم ہے کہ وہ معیشت کہاں چھوڑ کر گئے ہیں ۔جب ہم نے حکومت سنبھالی ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر پر شدید دبائو آنا شروع ہوگیا ۔ گزشتہ حکومت کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ہم نے اپنے ماضی کے سارے ادوار میں ملک کو سنبھالا ہے ۔اس مرتبہ جب حکومت میں آئے تو ہمیں معلوم تھا کہ ہم کسی چھتے میں ہاتھ ڈال رہے ہیں ۔

ہمارے سامنے چوائس تھی اپنی سیاست کو بچائیں ۔اگر سیاست کو بچانا ہوتا تو الیکشن کرا کے ہم ملک کو مزید بے یقینی میں ڈال دیتے ۔تین چار ماہ کا بحران ملک کو تباہ کر سکتا تھا ۔ اس وقت ملک کوٹھہرائو کی ضرورت تھی ۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ سیاست قربان کر کے اپنے ملک کو سنبھالیں گے ۔ جب ملک سنبھلے گا تو ہماری سیاست بھی سنبھل جائے گی ۔اب ملک کو ان خطرات سے سنبھالنے کا وقت ہے جو ہمارے گرد منڈلارہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان آج پاکستان میں انتشار پھیلانے کی سیاست کررہے ہیں،وہ پاکستانی قومی اداروں پر حملہ آور ہیں، اپنے ورکرز کے ذریعے فوج کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں وہ ایک ایسی مہم میں شامل ہیں جو دشمن اپنے دشمن کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان فارن فنڈنگ کے ذریعے اپنے اداروں کوکمزور کررہے ہیں ،ہم عمران خان کو اجازت نہیں دیں گے کہ منفی سیاست کے ذریعے پاکستانی قوم اور ریاستی اداروں کو تباہ کریں ۔

انہوں نے کہا کہ اس سال ٹیکس ہدف 7ہزار ارب ہے جس میں سے 58فیصد صوبوں کو چلا جائے گا ہم نے جو ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں وہ چار ہزار ارب روپے ہے، دفاع کیلئے 15سو ارب ، ترقیاتی منصوبوں کیلئے 7سو ارب ، نظام حکومت چلانے کیلئے 5سو ارب ، 12سو ارب روپے مختلف کارپوریشنز کو حکومت دینے کی پابندی ہے جبکہ سات سو ارب روپے کی ٹارگٹڈ سبسڈی کیلئے چاہئیں ہوں گے ۔ یہ وہ موٹے اخراجات ہیں جو ہم نے 3ہزار ارب روپے سے پورے کرنے ہیں ۔ جب اتنے اخراجات ہوں گے تو ہمیں قرضے تو لینے پڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کہتی ہے ہم نے 80نہیں 76فیصد قرض لیا ۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے حکومت کو وسائل پیدا کرنے ہیں ، پاکستان کو اس وقت چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے ۔

اگلے دس سال کے لیے پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ حکومت جس کی بھی آئے گی معاشی سمت نہیں بدلیں گے ۔اس تسلسل کو یقینی نہ بنایا تو کبھی بھی ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل نہیں کر پائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوتا تو اپنی گروتھ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے ۔ دو ،تین ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری سے ممالک ترقی نہیں کرتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اسٹرکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے ،ہمیں نئی سمت لینی ہے ، قومی اتحاد کے لیے اتفاق پیدا کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ انتشار کے ساتھ چلتے رہے تو جیسے پہلے سال ضائع ہوگئے اگلے پچیس سال بھی ضائع ہوجائیں گے۔