کراچی۔22دسمبر (اے پی پی):ایران کے قونصل جنرل حسن نوریان نے کہا ہے کہ اچھے سیاسی تعلقات اور گہری ثقافتی تاریخ کے باوجود ایران اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم تسلی بخش نہیں ہے جو اس وقت تقریباً 1.5 ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ دونوں حکومتیں تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے جو باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ایرانی حکومت نے حال ہی میں دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے بعض اچھے اقدامات کیے ہیں خاص طور پر دو مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں جن میں سے پہلا ایم او یو پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ بزنس کونسل کے قیام کے لیے کیا گیا ہے جبکہ دوسرے ایم او یو پر تجارتی تنازعات کی ثالثی کے سلسلے میں دستخط کیے گئے۔
اسی دوران کے سی سی آئی اور اصفہان چیمبر نے دونوں ممالک کی تاجر برادری کے درمیان تعاون کو بہتر بنانے کے لیے بھی ایک ایم او یو پر دستخط کیے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پراجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں چیئرمین بزنس مین گروپ اور چیف ایگزیکٹیو ٹی ڈی اے پی زبیر موتی والا، صدر کے سی سی آئی محمد طارق یوسف، سینئر نائب صدر توصیف احمد، نائب صدر محمد حارث اگر، چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز اینڈ ایمبیسیز لائژن سب کمیٹی ضیاء العارفین، سابق صدور مجید عزیز، افتخار وہرہ اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین نے بھی شرکت کی۔
ایرانی قونصل جنرل نے بتایا کہ سب سے اہم پیشرفت ایران پاکستان پی ٹی اے کے تحت پاکستان سے درآمد کی جانے والی اشیاء کی فہرست سے ممنوعہ اشیاء کو ہٹانا ہے لہٰذا اب ایران اور پاکستان کے تمام تاجر بلا کسی پابندی پی ٹی اے کے تحت کاروبار کر سکتے ہیں اور مکمل تجارتی صلاحیت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے تقریباً 1000 کلومیٹر پر محیط مشترکہ سرحد پھیلی ہوئی ہے۔
دونوں کی تاریخ اور ثقافت بھی بہت مشترکہ ہیں۔اس لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کی ضروریات بشمول ایرانی قدرتی گیس، خام تیل پیٹرو کیمیکل مصنوعات کی فراہمی کے لیے بہترین پوزیشن میں ہیں جبکہ پاکستانی زرعی مصنوعات ایران کو بھی برآمد کی جا سکتی ہیں۔انہوں نے بینکنگ چینل کی کمی کو ہموار تجارت میں بنیادی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایران نے بارٹر ٹریڈ میکانزم وضع کرنے کے علاوہ پاکستانی حکومت اور اسٹیٹ بینک کو تجویز دی ہے کہ وہ دونوں ممالک کی قومی کرنسیوں کے ذریعے تجارت کی اجازت دیں یا کراچی میں ایرانی بینک کھولنے کی اجازت دیں۔
اگرچہ ایران اور پاکستان کی وزارت تجارت کے درمیان بارٹر ٹریڈ کے لیے ایک ایم او یو پر دستخط کیے گئے تھے جبکہ کوئٹہ اور زاہدان چیمبرز کو بارٹر ٹریڈ شروع کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن کچھ تکنیکی مسائل کی وجہ سے اب تک ان پلیٹ فارمز کے ذریعے بارٹر ٹریڈ شروع نہیں ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی( ٹی ڈی اے پی) زبیر موتی والا کی طرف سے دی گئی دعوت کے جواب میں ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن( ٹی پی او) ایران کے چیئرمین ٹی ڈی اے پی کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے کے لیے 16 جنوری 2023 کو کراچی کا دورہ کریں گے جس کے تحت دونوں ادارے تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے طریقے تلاش کریں گے۔
چیئرمین ٹی پی او ایم او یو پر دستخط کرنے کے علاوہ کراچی ایکسپو سینٹر میں ایران کی سنگل کنٹری نمائش میں بھی شرکت کریں گے جو 16 جنوری سے شروع ہوگی۔انہوں نے تجارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے طریقہ کار کے بارے میں تاجر برادری سے معلومات حاصل کرتے ہوئے کے سی سی آئی کے ممبران سے درخواست کی کہ وہ ایرانی نمائش کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور شرکت کریں۔چیئرمین بی ایم جی اور سی ای ٹی ڈی اے پی زبیر موتی والا نے اپنے خطاب میں ایران کی جانب سے کراچی میں سنگل کنٹری نمائش کے انعقاد کے اقدام کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہوئے اس اہم تقریب کے انعقاد میں نہ صرف ٹی ڈی اے پی بلکہ کراچی چیمبر کے مکمل تعاون کا بھی یقین دلایا۔
انہوں نے کہا کہ کے سی سی آئی کئی سالوں سے باقاعدگی سے ”مائی کراچی” نمائش کا انعقاد کر رہا ہے اور اس طرح کی تقریبات کے انعقاد کے لیے مطلوبہ مہارت رکھتا ہے لہٰذا متاثر کن انداز میں سنگل کنٹری نمائش کے انعقاد میں ایران کی مکمل مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے دونوں برادر ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ کنفیکشنری آئٹمز، پٹرولیم مصنوعات اور اس کے خام مال، پلاسٹک اور دیگر بہت سی مصنوعات جن میں ایران مہارت رکھتا ہے پاکستان درآمد کی جا سکتی ہیں جبکہ چائے، چاول، کپڑا، گارمنٹس اور بہت سی مصنوعات ایران کو برآمد کی جا سکتی ہیں۔کے سی سی آئی کے صدر طارق یوسف نے ایرانی قونصل جنرل کا خیرمقدم کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بہترین برادرانہ تعلقات کے باوجود دوطرفہ تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر تک لے جانے کی صلاحیت سے کافی کم ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ کے سی سی آئی اور اصفہان چیمبر نے حال ہی میں تجارتی تعلقات کی ترقی اور تعاون کے طریقہ کار کو طے کرنے اور عملی فریم ورک قائم کرنے کے لیے ایک تاریخی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جو دونوں ایوانوں کے درمیان باہمی اقتصادی مقاصد کے نفاذ کو بڑھا سکتا ہے۔انہوں نے آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) پر مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ نافذالعمل ہو جاتا ہے تو اس سے پاک ایران دوطرفہ تجارت کو نئی سطح پر بحال کیا جائے گا اور گہرے مالی اور اقتصادی تعاون کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے دونوں ممالک کے درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان کو سرمایہ کاری اور سہولت فراہم کرنے کے لیے مزید مصنوعات شامل کرکے بارٹر ٹریڈ باسکٹ کو بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا جو یقینی طور پر پاک ایران اقتصادی اشتراک کو گہرا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایران مشترکہ تجارتی کمیٹی نے سرحدی منڈیوں پر مرحلہ وار عمل درآمد اور سرمایہ کاروں کی خصوصی اقتصادی زونز تک رسائی کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جا سکے جو دونوں ممالک کے درمیان رسمی تجارت کو بہتر بنا کر سرحد پار اقتصادی تعاون کو مضبوط کرے گا اور غیر قانونی سرحدی تجارت کی حوصلہ شکنی کرے گا۔