ایشیا کا مستقبل دنیا کا مستقبل ہے،ہمیں چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن ترقی وخوشحالی کے زبردست مواقع موجود ہیں، وزیر اعظم عمران خان کا ایشیا کے مستقبل کے موضوع پر 26 ویں کانفرنس سے ورچوئل خطاب

129

اسلام آباد۔21مئی (اے پی پی):وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایشیا کا مستقبل دنیا کا مستقبل ہے،ہمیں چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن ترقی وخوشحالی کے زبردست مواقع موجود ہیں، کورونا سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کی بحالی اور معاشرتی استحکام کے لئے مالیاتی آسانیاں اور فنڈز فراہم کئے جائیں،ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کے مابین ڈیجیٹل تفریق کو ختم کرنا ہوگا،پائیدار ترقی اور 2050 تک کاربن کے مکمل اخراج کے اہداف کے حصول کے لئے بنیادی ڈھانچے پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے،پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے اس کے لئے بھارت کوکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند اور5 اگست کے یکطرفہ اقدامات پر نظرثانی کرنا ہوگی،فلسطین کی صورتحال ہر ایک کے لئے گہری تشویش کا باعث ہے،

اقوام متحدہ کی متعلقہ قرادادوں اور دوریاستی نظریہ کے تحت منصفانہ اور دیرپا حل کے لئے سہولت فراہم کرنی چاہییے،جب تک اس خطے میں دیرینہ اور دیگر تنازعات کو حل نہیں کرتے ترقی کے امکانات سے اس وقت تک مستفید نہیں ہوسکتے،افغانستان کےتنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں۔وہ جمعہ کو ایشیا کے مستقبل کے موضوع پر 26 ویں کانفرنس سے ورچوئل خطاب کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس سے خطاب ان کے لئے اعزاز ہے،ایشیا دنیا کی آبادی کا نصف ہے ایشیا کا مستقبل دنیا کا مستقبل ہے،یہ وہ مقام ہے جہاں گزشتہ 50 سال کے دوران انتہائی فعال معاشی نمو،ٹیکنالوجی میں ترقی،سماجی تبدیلی،صنعت وحرفت میں ترقی اور انسانی ترقی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ایشیااور دنیا اہم موڑ پرہیں،ہمیں غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا ہے،لیکن ہمارے پاس ترقی ،خوشحالی کے لئے آگے بڑھنے کے زبردست مواقع بھی موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری پہلی ترجیح کووڈ 19 کا مقابلہ اور اس پر قابو پانا ہے،اس وبا نے گزشتہ سو سالہ صحت،معیشت اور سماجی حوالے سے بدترین بحران پیدا کیا ہے

اس وائرس نے کروڑوں افراد کو متاثر کیا،30 لاکھ سے زائد افراد اس سے ہلاک ہوئے،معاشی نمو میں تنزلی ہوئی،غربت میں اضافہ ہوا،اور بدترین بات یہ ہے کہ بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے،اس وائرس پر جب تک مکمل کنٹرول نہیں ہوتا یہ معاشرتی انتشار اور ایشیا اور دنیا میں کہیں بھی امن وسلامتی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس سے کوئی بھی اس وقت تک محفوظ نہیں ہوگا جب تک ہر کوئی محفوظ نہ ہو،ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لئے لازمی طور پر مل کر کام کرنا ہوگا،

کووڈ ویکسین ہر ایک کو جلد از جلد ہر جگہ دستیاب ہو،ویکسین کی فراہمی اور تقسیم کو فوری طور پر بڑھایا جائے،حقوق دانش معاف کئے جائیں،ترقی پذیر دنیا سمیت اس کی پیداوار بڑھائی جائے اور ویکسین کی سہولت کو وسعت دی جائے اور مالی اعانت فراہم کی جائے۔انہوں نے کہا کہ اس وائرس نے غریب ممالک کو زیادہ متاثر کیا ہے اس کے اثرات سے مقابلہ کے لئے ضروری ہے کہ کم آمدنی والے ممالک اور دیگر مالی پریشانی کا شکار ممالک کو نمو بحالی اور معاشرتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے مالیاتی آسانیاں اور فنڈز فراہم کئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے قرضوں میں سہولت کے لئے پانچ نکاتی ایجنڈا تجویز کیا،ایس ٹی آر کی تشکیل اور قرضوں کے ازسرنو مرتب کرنے،وسیع تر آسان مالی فنانس،ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مالیاتی وعدوں کی تکمیل اور ترقی پذیر ممالک سے رقوم کی غیر قانونی منتقلی کے خاتمے کے لئے تجویز کیا،

مجھے خوشی ہے کہ ان ضروری اقدامات کے بارے میں اتفاق رائے پیدا ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ جی 20 ممالک کی جانب سے قرض معطلی کے اقدام کو سراہتے ہیں،650 ایس ڈی آرزکے قیام کے نئے معاہدے،آئی ڈی اے فنڈنگ میں توسیع اور کثیر الجہت ترقیاتی بنکوں کے ہنگامی امدادی پروگراموں میں توسیع،رقوم کی ناجائز منتقلی سے متعلق ایف اے سی ٹی آئی کی سفارشات پر بھی عمل درآمد ہونا چاہییے،ہمیں چاہییے کہ ایشیا میں بجی اور دیگر جگہوں پر تیزی سے بحالی کو یقینی بنانے کے لئے معیشتوں کو کھلا رکھیں،بند سپلائی چینز کو کھولیں اور تحفظ کی پالیسیوں کے لالچ کے خلاف مزاحمت کریں۔انہوں نے کہا کہ اگر ایشیا اور دیگر معیشتوں نے سال 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف اور 2050 تک کاربن کے مکمل اخراج کا ہدف حاصل کرنا ہے تو ہمیں نئے اور پائیدار بنیادی ڈھانچے یعنی توانائی،نقل وحمل، رہائش، زراعت اور صنعت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کو متحرک کرنا ہوگا،

کم ترقی یافتہ ممالک کے پائیدار بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی ترجیحات طے کرنے میں مدد کی جانی چاہییے۔انہوں نے کہا کہ نجی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لئے ایسے منصوبوں کو مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈز اور سرمایہ کاری کی ضمانتوں اور معاعات کے ذریعے خطرات سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں پائیدار ترقی اور ماحولیاتی اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے درکار اہداف پر مبنی جدتوں اور استعمال کار پر تحقیق کے ذریعے پائیدار نمو میں اضافہ کے لئے ہر صورت سائنس وٹیکنالوجی کو متحرک کرنے کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے۔متحرک نمو کو یقینی بنانے کے لئے معشتوں کی تیزی سے ڈیجیٹلائزیشن ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ معیشتوں جہاں 87 فیصد لوگ آن لائن ہیں اور غریب ممالک جہاں صرف 19 فیصد آبادی کو انٹر نیٹ تک رسائی حاصل ہے، کے مابین ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا ہوگا،بصورت دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کی ترقی کی راہ پر تفریق مزید بڑھ جائے گی،اس مقصد کے لئے ڈیجیٹل ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر میں سرمایہ کاری میں اضافے کی ضرورت ہے

،خاص طور پرایشیا میں مضبوط اور متحرک معاشی نموکا زیادہ انحصار باہمی ملاپ اور طبعی رابطوں پر ہے۔انہوں نے کہا کہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ اقدام ایشیا بحراوقیانوس کے خطے اور اس سے پیچھے علاقائی رابطوں کے لئے اہم راستہ فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایشاء اور دیگر جگہوں پر معیاری بنیادی ڈھانچے کی حمایت اور مالی امداد کے لئے جاپان اور دیگر ممالک کی تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔چین پاکستان اقتصادی راہداری بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کا فلیگ شپ منصوبہ ہے اس منصوبے سے معاشی سرگرمیوں میں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور اس سے علاقائی اور دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا۔پاکستان نے تمام دوست ممالک کو سی پیک کی چھتری کے تحت قائم ہونے والے متعدد صنعتی و معاشی زونز میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے،

پاکستان وسط،جنوبی اور مغربی ایشیا اور اس سے اگے کی معیشتوں کے لئے ایک جغرافیائی مرکز کے طور پر خدمات سرانجما دینے کا منتظر ہے،یہ ذیلی خطے وہ علاقے ہیں جہاں ایشیا میں نئی متحرک ترقی کے زیادہ امکانات ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ان امکانات سے اس وقت تک مستفید نہیں ہوسکتے جب تک اس خطے میں دیرینہ اور دیگر تنازعات کو حل نہیں کرپاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن عمل کی بھرپور حمایت کی ہے،افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا جیسے ہی انخلاءہوتا ہے ضروری ہے کہ افغان فریقین کے مابین امن عمل کو فروغ دینے کی کوششوں کو دوگنا کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جیسا کہ میں نے سال ہا سال سے کہا ہے کہ افغانستان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے،پاکستان کو امید ہے کہ تشدد میں تیزی سے کمی واقع ہوگی اور افغان فریقین اپنے طور پر وسیع البنیاد اور جامع سیاسی تصفیئے کے حصول کے لئے تعمیری کوششیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے لیکن بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں روکنا ہوں گی اور 5 اگست کےکو اٹھائے گئے یک طرفہ غیر قانونی اقدامات پر نظرثانی کرنا ہوگی،

یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرادادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ کو بات چیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ایشیا کی امن وسلامتی کو لاحق دیگر خطرات بھی حل ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کی صورتحال ہر ایک کے لئے گہری تشویش کا باعث ہے،عالمی برادری کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حملے رکوانے چاہییں اور مقدس مقامات بالخصوص مسجد اقصی کی بے حرمتی روکنے کے لئے فوری اقدامات اٹھانا چاہییں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قرادادوں اور دوریاستی فارمولہ کے تحت ایک منصفانہ اور دیر پا حل کے لئے سہولت فراہم کرنی چاہییے،

وزیر اعظم نے کہا کہ ایشیا میں تمام ریاستوں کے لئے معیشت،تجارت اور سرمایہ کاری میں شراکت کے لئے وسیع مواقع موجود ہیں،اس صورت میں بیرونی یا اندرونی تنائو کا میدان نہیں بننا چاہییے،ایشیا میں اختلافات اور تنازعات کے حل کے لئے ایشیائی اقدام اور مفادات کی بنیاد پر ایشیائی سطح پر حل کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ بحر ہند سمیت ایشیا پیسیفک کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین ڈنگ امن بقائے باہمی کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے تعاون اور خوشحالی کے فروغ سے پرامن خطہ بننا چاہیے۔