اسلام آباد۔1جون (اے پی پی):سپیکرقومی اسمبلی اسدقیصرنے کہاہے کہ اقتصادی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک کو اپنے موثر اجتماعی کردار سے عالمی سیاست میں اپنا مقام پیدا کرنے اور علاقائی ترقی پر توجہ دینا ہوگی، ای سی او ممالک مشرق اور مغرب کے مابین عالمی تجارتی راہداری کا واحد ذریعہ ہیں، سی پیک کے تحت پاکستان سے چین تک ریلوے ٹریک کی تعمیر اس پورے وسط ایشیائی خطہ کے لئے اقتصادی ترقی میں معاون ہو گی،گوادر اور چاہ بہار کے مابین ریل نیٹ ورک کا قیام اوریورپ اور ایران اور ترکی کے ذریعے وسط ایشیا تک اس کی رسائی خطہ میں اہم اقتصادی ترقی میں پیش رو ثابت ہو گی، پاکستان کشمیری عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک کشمیری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت کے اپنے جائز حق کو حاصل نہیں کرلیتے۔
پیرکویہاں قومی اسمبلی کی میزبانی میں اقتصادی تعاون کی تنظیم ای سی او کی پارلیمانی اسمبلی کی دوسری کانفرنس کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاک کووڈ-19 کی عالمی وبا کی اس لہر اور عالمی پابندیوں کے باوجود معز زمہمانوں کی یہاں تشریف اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم پارلیمانی شراکت داری پر یقین رکھتے ہیں۔ اور اس نکتے پر متفق ہیں کہ ہم سب مل جل کر ہی اپنے خطے کو ترقی کی بلندیوں تک لے جاسکتے ہیں۔ 8 سال پہلے علاقائی پارلیمانی الائنس کا بویا ہوا بیج آج جڑیں پکڑ رہا ہے۔ ای سی او کے برادر ممالک کی ثقافت، مذہب اورتاریخ ایک ہے۔ ہمیں اس پر فخر بھی ہے۔ ہمارے تجارتی تعلقات آزمودہ ہیں۔ انہی مضبوط رشتوں کے ذریعے ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس فورم کے ذریعے، ہمیں یہ موقع میسر آیا ہے کہ ہم اپنے خطہ کے لئے بامقصد اور موثر تعاون اور رابطہ کا فریم ورک قائم کریں۔
سپیکر نے کہاکہ اس وقت دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں مثلاً غیر ریاستی عناصر کا اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے، اسی طرح دنیا بھر میں تشدد پسندی بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف ریاستوں کا انفرادی کردار کم ہورہا ہے اور عالمی سیاست میں علاقائی تعاون بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی اپنے موثر اجتماعی کردار سے عالمی سیاست میں اپنا مقام پیدا کریں اور علاقائی ترقی پر توجہ دیں۔ ماضی میں ایشیا دنیا بھر کی کل پیداوار کا 60 فیصد حصہ پیدا کر تاتھا مگر پھر یہ حصہ سکڑتا چلا گیا۔ اب پھر ہمارے خطے میں تیزی سے ترقی ہورہی ہے اور عنقریب ہمارا خطہ دوبارہ دنیا کا ترقی یافتہ خطہ بن جائے گا۔سپیکرنے کہاکہ مستقبل قریب میں دنیا ایک قطبی سے کثیر قطبی بین الاقوامی نظم کی طرف گامزن ہونے والی ہے۔ لہٰذا ہمیں اِن حالات کے پیشِ نظر اپنی مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیے۔ ہمارے ممالک کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہم ہے۔ ہماری مجموعی آبادی 460ملین افراد سے زائد ہے۔ نیز ہمارے ممالک کا رقبہ 8 ملین مربع کلو میٹر سے زائدہے۔
ہمارے ممالک روس کو خلیج فارس سے اور چین کو یورپ سے ملارہے ہیں۔ ای سی او ممالک مشرق اور مغرب کے مابین عالمی تجارتی راہداری کا واحد ذریعہ ہیں۔ ہمیں محلِ وقوع کی اس برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقائی ترقی پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ یہ بدقسمتی ہے کہ وسیع مواقع ہونے کے باوجود ہمارے لوگ بھوک، افلاس، بیماری، ناخواندگی کا شکار ہیں۔ ہمارے لوگوں کو بہتر مستقبل کے لئے مواقع کی کمی کا سامنا ہے۔ ہمیں مضبوط علاقائی تعاون کے ذریعے پورے خطے کو عظیم تر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ای سی او جیسے ادارے کو فروغ دینے کے علاوہ خطہ میں باہمی تجارت، رابطہ کاری اور مشترکہ بینکاری کے نظام کے قیام پر توجہ دینی چاہیے۔گوادر اور چاہ بہار کے مابین ریل نیٹ ورک کا قیام اوریورپ اور ایران اور ترکی کے ذریعے وسط ایشیا تک اس کی رسائی خطہ میں اہم اقتصادی ترقی میں پیش رو ثابت ہو گی۔
اسی طرح سی پیک کے تحت پاکستان سے چین تک ریلوے ٹریک کی تعمیر اس پورے وسط ایشیائی خطہ کے لئے اقتصادی ترقی میں معاون ہو گی۔ سپیکرنے کہاکہ ہمیں ٹرانزٹ فریم ورک ایگریمنٹ ( ٹی ایف اے) پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ آج کی دنیا کو جن چند بدترین چیلنجوں کا سامنا ہے، ان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی شامل ہیں۔ان مشترکہ چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے مشترکہ پارلیمانی اقدامات ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں قیامِ امن کا خواہشمند رہا ہے۔ لہٰذا افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں، پاکستانی پارلیمنٹ نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اس کی حمایت کی ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ اس سلسلے میں افغان پارلیمنٹ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
قومی اسمبلی پاکستان نے اکتوبر، 2020 یں پاک- افغان تجارتی و سرمایہ کاری فورم کی میزبانی کی اور پاک- افغان پارلیمانی دوستی گروپ کی ایگزیکٹو کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت و تعلقات کو فروغ دیا جا سکے اور اس سلسلے میں درپیش رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان خطے کے ممالک کے درمیان پر امن بقائے باہمی اور تعاون پر مبنی تعلقات کا سرگرم حامی رہا ہے۔ تاہم خطے میں پائیدار امن کا انحصار دیرینہ حل طلب مسئلہ کشمیر کے پر امن تصفیے پر ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک کشمیری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت کے اپنے جائز حق کو حاصل نہیں کرلیتے۔ بھارت فوجی مہم جوئی کر کے اور ہندوتوا کے انتہاپسندانہ نظریے کو پھیلا کر نہ تو پاکستان کو کشمیر کی حمایت سے پیچھے ہٹا سکتا ہے اور نہ ہی باہمت کشمیری عوام کے جذبے کو روک سکے گا۔میں مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے لئے ای سی او ممالک کی مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
چونکہ ہم سب اپنی مشترکہ ترقی کے لئے امن کو فروغ دینے کا عہد کرتے ہیں لہذا ہمیں فلسطین میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی تکالیف اور اذیتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ جب اسرائیلی افواج مسجد اقصیٰ میں پرامن نمازیوں پر کھلم کھلا اور انتہائی ظالمانہ حملے کرتی ہیں، غزہ کی پٹی کا محاصرہ کرتی ہیں اور رہائشی علاقوں کو ہدف بناتی ہیں تو دنیا کی نام نہاد عالمی مغربی طاقتیں انسانی حقوق، جنگی جرائم اور امن کے معاہدوں جیسی باتوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ غزہ میں شہادتوں کی تعداد 200سے زیادہ اور شدید زخمیوں کی تعداد تقریباً 2000ہو چکی ہے۔
مسلم ممالک کو اس مسئلے کو صحیح معنوں میں اجاگر کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ فلسطینیوں کے مصائب پر عالمی برادری توجہ دے، اور اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جائے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے کووڈ-19 کے بعد علاقائی اقتصادی تعاون میں اضافہ کے لئے حال ہی میں چھ اہم تجاویز پیش کی ہیں جن میں عالمی وبا سے نبرد آزما ہونے کے لئے قومی وبین الاقوامی وسائل کو استعمال میں لانا، مستقبل میں اس طرح کے بحران کا سد باب کرنے کےلئے صحت کی نگہداشت کے پائیدار نظام کا قیام،ای سی او ممالک میں تجارت کو آسان بنانے اور دیگر عالمی معیشتوں کوراہداری کی سہولت دینے کے لیے ٹرانسپورٹ کے مربوط نیٹ ورک کی ترقی، ای سی او ادارہ برائے سرمایہ کاری اور تنظیم برائے سالانہ ای سی او سرمایہ کاری میلہ کا قیام، تجارت کے فروغ کے لیے اقدامات اورعلم پر مبنی معیشتوں کے فروغ، تحقیق اور ترقی پر اخراجات میں اضافہ اور تیزترین ڈیجیٹلائزیشن خصوصاً ای سی او ممالک کے تمام حصوں تک نشریات کی وسعت بڑھانے پر توجہ دینا شامل ہیں